نابغہ روزگار شخصیت مجید نظامی، کچھ یادیں کچھ باتیں

ڈاکٹر مجید نظامی مرحوم ایک نابغہ روزگار شخصیت اور نظریۂ پاکستان کے حوالے سے قائداعظم محمد علی جناح اور علامہ محمد اقبال کی تحریکِ پاکستان کے عظیم ورثہ کے امین تھے ۔حقیقت یہی ہے کہ قائداعظم کی جلد رحلت اور لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد اقتدار کے ایوانوں پر نظریاتی فکر کے حامل رہنمائوں کی گرفت کمزور پڑنے اور منصبِ اقتدار پر کھوٹے سکّوں کے قابض ہوجانے کے باعث نظریۂ پاکستان کے آدرشوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا ۔ گو کہ ملک میں عوامی جمہوریت کی بحالی کیلئے فکرِ قائد پر عمل کرتے ہوئے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح نے مقدور بھر کوشش کی لیکن مخصوص مفادات کے تابع سیاسی قوتوں نے اِس آوازِ حق کو بھی خاموش کر دیا ۔ چنانچہ اِسی دلگیر منظر نامے میں نظریۂ پاکستان کے احیا کیلئے جناب مجید نظامی نے اپنی ذات میں ایک انجمن بن کر قومی منظر نامے میں بھرپور آواز بلند کی ۔ اُنہوں نے جناح و اقبال کی تعلیمات کو اپنا اُوڑھنا بچھونا بناتے ہوئے ظلمات کے اندھیروں میںنظریہ پاکستان کی آبیاری کی اور پیرانہ سالی میں بھی شب و روز کی بے مثال جدو جہد کے ذریعے تحریکِ پاکستان کی فکر کو ایک ناقابلِ تسخیر نظریہ میں تبدیل کر دیا ۔ گو کہ جناب مجید نظامی اِس دنیا کو خیرباد کہہ کر اب دربارِ خداوندی میں پیش ہو چکے ہیں لیکن اللہ تبارک تعالیٰ نے مملکت خداداد میں جو مشن اُنہیں سونپا تھا یقینا اُنہوں نے اُسے کمال خوبی سے نبھایا۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اپنے قومی مشن کی تکمیل کے بعد 27 رمضان المبارک کی شب اُن کی رحلت اِس اَمر کی نشان دہی کرتی ہے کہ 27 رمضان کی شب دنیا سے جانے والے لوگ اللہ تبارک تعلیٰ کی رحمتوں اور نبی کریم ﷺ کی خصوصی شفاعت سے ضرور بہرہ مند ہوتے ہیں اور یہ سعادت بھی ذات خداوندی نے جناب مجید نظامی کے مقدر میں لکھ دی تھی۔
قومی سلامتی کے آدرشوں کے حوالے سے جناب مجید نظامی بہت ہی عمیق نگاہ کے مالک تھے۔ اُنہوں نے بیوروکریسی اور اسٹبلشمنٹ میں جناح و اقبال کی فکر رکھنے والے بیشتر ریٹائرڈ افسران جن میں چیف سیکریٹری اور جنرل تک شامل تھے کو اپنے اخبار میں لکھنے کی دعوت دینے میں کبھی تامل نہیں کیا ۔ فروری 2005 میں ریٹائرمنٹ کے بعد راقم کی کتاب ،جنوبی ایشیا میں تہذیبی کشمکش، کی نظریۂ پاکستان ٹرسٹ لاہور میں تقریب رُونمائی کا کریڈٹ بھی نظامی صاحب کو ہی جاتا ہے۔ مجھے حیرت ہوئی جب نظامی صاحب نے تقریب کے اختتام پر مجھ ناچیز کو یہ کہتے ہوئے کالم لکھنے کی دعوت دی کہ پہلے آپ ریاست کیلئے لکھتے تھے اب آپ ہمارے اخبار کیلئے لکھیں اور پھر 23 مارچ 2005 کو یوم پاکستان کے حوالے سے راقم کا مضمون کلر سپلیمنٹ میں پہلے صفحے پر شائع ہوا۔اِسی طرح راقم کی کتاب ،بھارتی جوہری بالادستی اور ڈاکٹر اے کیو خان، کی تقریب رونمائی میں نظامی صاحب انجمن فیض السلام راولپنڈی کے وسیع و عریض ہال میں 10 مارچ 2012 میں خطبہ صدارت دینے کیلئے تشریف لائے تو اُنہوں نے قومی سلامتی امور پر دانشوروں اور سیاسی رہنمائوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو امریکہ ، بھارت و اسرائیل کی تکون کے خطے میں عزائم سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ بھارت اِن بیرونی طاقتوں کے زور پر بلوچستان اور کراچی کے ملحقہ علاقوں میں بدامنی پیدا کرکے بنگلہ دیش کے بعد بلوچستان کو الگ ریاست بنانا چاہتا ہے ۔اُنہوں نے دعائیہ انداز میں کہا کہ رانا عبدالباقی جیسے لوگوں کو زندہ رہنا چاہیے کیونکہ اِن کا شمار بھی ایسے ہی لوگوں میں ہے جو پاکستان کی سلامتی کو لاحق خطرات کی ایک تسلسل سے نشان دہی کر رہے ہیں۔ دراصل جناب مجید نظامی کی عمیق نگاہ بھارتی سازشوں کو بروقت آشکار کرنے پر بخوبی محیط رہی ۔ اُنہوں نے مسئلہ کشمیر پر بھارتی بدعہدیوں کا بغور مطالعہ کیا ۔ دونوں ملکوں کے درمیان اثاثوں کی تقسیم سے بھارت کا گریز ، قیام پاکستان کے فوراً ہی بعد ستمبر 1947 میں سابق صوبہ سرحد میں بھارتی حمایت سے پختونستان کی تحریک کے آغاز ، مشرقی پاکستان میں بنگالی ہندوئوں کی حمایت سے بنگلہ زبان کی آڑ میں تخریب کاری کا آغاز ، 1962 میں چین بھارت جنگ کے موقع پر پاکستان کی جانب سے کشمیر میں عدم مداخلت کے باوجود 1965 کی جنگ میں بھارتی فوج کا پاکستان کی بین الاقوامی سرحدوں کو عبور کرنا ، 1966 کے تاشقند معاہدے میں پاکستان کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے سمجھوتے پر دستخط کرنے کے باوجود مشرقی پاکستان میں تخریب کاری کیلئے مکتی باہنی کی تشکیل ، مسلح مداخلت اور سقوط ڈھاکہ کے بعد اندرا گاندہی کا بھارت پر مسلمانوں کی ایک ہزار سالہ حاکمیت کا بدلہ لینے کیلئے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبونے کا اعلان ۔ 1972 میں شملہ معاہدے کے تحت کشمیر کی پوزیشن میں بزور طاقت کسی نوعیت کی تبدیلی نہ کرنے کا معاہدہ کرنے کے باوجود سیاچین گلئشیر پر بھارت کا قبضہ اور کشمیر سے پاکستان آنے والے دریائوں پر آبی جارحیت کیلئے درجنوں ڈیموں کی تعمیر وغیرہ ایسے معاملات تھے جن پر جناب مجید نظامی گہری نظر رکھتے ہوئے خطے میں بھارتی عزائم کے خلاف ہمیشہ متحرک رہے ۔
نظریۂ پاکستان کی تجدید و ترویج کے حوالے سے جناب مجید نظامی کا جذبۂ حب الوطنی اِس لئے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنا اُن کی زندگی کا خاصہ رہا ہے ۔ ڈاکٹر اے کیو خان پر راقم کی کتاب کیلئے ایک خصوصی پیغام میں جناب مجید نظامی نے اپنے قلم سے لکھا : " چاغی ایٹمی دھماکوں سے قبل ڈاکٹر عبدالقدیر خان میرے دفتر میں تشریف لائے تھے اور اُس وقت وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے ملاقات کیلئے میرے ہمراہ رائے دنڈ تشریف لے گئے تھے جہاں وزیراعظم کے والد مرحوم میاں محمد شریف اور شریف فیملی کے تمام افراد اور حاضرین نے اُن کا خیر مقدم کرتے ہوئے اُنہیں پھولوں سے لاد دیا تھا جبکہ وزیراعظم نواز شریف پر ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کا زبردست بیرونی دبائو تھا ۔میاں صاحب نے اِسی دبائو کے پیش نظر سنیئر صحافیوں ، ایڈیٹروں ، قومی دانشوروں اور سینئر بیوروکریٹس سے مشاورت کے دوران بھی ایٹمی دھماکہ نہ کرنے سے متعلق بیرونی دبائو کا تذکرہ کیا تھا ۔ بیشتر صحافیوں ، دانشوروں ، بیوروکریٹس اور اسٹبلشمنٹ کے نمائندے امریکی دبائو کے پیش نظر ایٹمی دھماکے کے خلاف رائے رکھتے تھے لہذا میں نے (مجید نظامی) مشاورتی اجلاس میں شدید دبائو کی اِس صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم نواز شریف کو مخاطب کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا کہ جنابِ وزیراعظم آپ قوم و ملک کے مفاد میں ایٹمی دھماکہ کریں ورنہ میں آپ کا دھماکہ کر دونگا اور قوم آپ کا دھماکہ کر دیگی۔ اِس اجلاس کے بعد وزیراعظم نے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے مجھے بتایا کہ اُنہوں نے میری رائے کو اہمیت دیتے ہوئے ایٹمی دھماکہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے " چنانچہ ، جناب مجید نظامی کی اِنہی بے لوث قومی خدمات کے باعث اُنہیں ہلالِ پاکستان کے قومی اعزاز سے نوازا گیا ۔قومی سلامتی کے حوالے سے جناب مجید نظامی کی آتش نوائی بے سبب نہیں تھی ۔ گو نظامی صاحب آج ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن عوام الناس میں جناح و اقبال کی فکر کو جگانے کیلئے اُن کی جدو جہد آج بھی ہمارے احساس کے جذبوں کو زندہ رکھے ہوئے ہے ۔ بقول اقبال... ؎
راز اِس آتش نوائی کا مرے سینے میں دیکھ
جلوۂ تقدیر میرے دل کے آئینے میں دیکھ

ای پیپر دی نیشن