حکومت اور مدارس میں نصاب پر تاریخی معاہدہ

Jul 29, 2016

امتیاز احمد تارڑ

نائن الیون کے بعد جن سیاہ گھٹائوں نے ہماری فضائوں اور اقدار پر قبضہ جمایا تھا اب آہستہ آہستہ اس کی گرفت ڈھیلی ہوتی جا رہی ہے کولن پاول کی ایک فون کال پر سرنڈر ہونیوالے جرنیل کی پالیسیوں کو دیمک نے چاٹ لیا ہے۔ اب ہماری ہوائیں اور فضائیں ہی نہیں بلکہ نظام تعلیم بھی آزاد ہو رہا ہے جس کی واضح نشانی حکومت پاکستان کی پہلی جماعت سے بارہویں تک سکولز اور کالجز میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دینا ہے اس کے ساتھ ہی ہماری تہذیب، ہماری ثقافت ہماری اقدار اور روایات کے قلعے میں لگنے والا نقب بند ہو گیا ہے۔ دوسری یلغار دینی مدارس کیخلاف تھی علم و عمل اور امن و آشتی کے چشموں کو دہشت گردی کے مراکز اور پنیریاں قرار دیا گیا۔ سابق وفاقی وزیر تعلیم زبیدہ جلال نے دسمبر 2003ء میں یہ کہہ کر قرآنی آیات نصاب تعلیم سے خارج کر دی تھیں کہ ان سے دہشت گردی پھیلتی ہے لیکن مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نہ صرف مدارس دینیہ کے ساتھ تعلقات مضبوط کیے بلکہ وفاقی وزیر مملکت تعلیم انجینئر بلیغ الرحمن کی سنجیدگی اور دھیمے پن اور مذہبی قیادت سے قریبی تعلق کے باعث مدارس دینیہ کی قیادت کے ساتھ وہ معاہدہ طے پایا جس کے رائج ہونے سے ملک بھر میں موجود 35ہزار مدارس دینیہ میں پڑھنے والے 35 لاکھ طلباء کا مستقبل درخشاں ہو گا۔ وہ اب انتہا پسندوں کا آلہ کار بننے اور ملک دشمن عناصر کی کھرلی کا چارہ بننے کی بجائے محب وطن بن کر ملکی سرحدوں کا تحفظ کریں گے۔ پیار و محبت سے عشق و جنوں کے اس جوہر کو قابو کیا جا سکتا ہے۔ پنجہ آزمائی سے سوائے انتشار کے کچھ حاصل ہوا نہ ہی طاقت کے بل بوتے پر انہیں زیر کیا جا سکتا ہے۔اتحاد تنظیمات مدارس کے قائدین مفتی منیب الرحمن، مولانا قاری حنیف جالندھری، مولانا یاسین ظفر نے جدید علوم پڑھانے کے بدلے مدارس کی اسناد کو تسلیم کروا کر 35 لاکھ طلباء پر احسان کیا ہے۔ پانچوں مدارس تعلیمات کے بورڈز کو بھی اب قانونی شکل مل جائے گی اور تمام مدارس اپنے نظام تعلیم میں بورڈ اور یونیورسٹی کے لازمی مضامین شامل کرکے مہمان رسولؐ کو دین کیساتھ ساتھ دنیا میں بھی سرخرو کرینگے۔ مدرس کے طلباء اب شہادۃ العالیہ کیساتھ مطالعہ پاکستان انگریزی اور دو اختیاری مضامین کا امتحان دے کر بی۔اے کی سند حاصل کر سکیں گے اور اسکے ساتھ ہی مدارس پر کڑی ضابطہ بندیوں کا سلسلہ بھی ختم ہو جائیگا۔ اکثر مدارس میں تو پہلے ہی عصری علوم کی تعلیم دی جاتی ہے ان کا نظم و نسق، نصاب اور داخلی ماحول ملکی قوانین سے ہم آہنگ ہے۔ انکے کلاس روم سے لیکر ہاسٹل تک تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت پر بھی خصوصی توجہ دی جاتی ہے۔ اگر لاہور کے مدارس کی بات کریں اور صرف جامعہ اشرفیہ، جامعہ ہجویریہ، جامعہ نعیمیہ اور جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کے نصاب میں جھانک کر دیکھیں تو ان کا داخلی ماحول، نصاب اور طلبا کا رہن سہن دیکھ کر آپ بڑی بڑی یونیورسٹیوں کو بھول جائینگے۔ جامعہ نعیمیہ اور جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کے طلباء لاہور بورڈ میں پوزیشن حاصل کر چکے ہیں۔ اسکے باوجود وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات نے ان علمی درسگاہوں کو جہالت کی فیکٹریاں قرار دیا تھا۔ پرویز رشید کی آنکھیں کھولنے کیلئے بتانا ضروری ہے کہ میٹرک کے 2016ء کے رزلٹ میں کم ترین وسائل کے باوجود ملتان، فیصل آباد اور ساہیوال بورڈ کے نتائج میں آرٹس گروپ کی پہلی تمام پوزیشنز مدارس کے طلبہ نے حاصل کیں ہیں،مدارس کے طلبانے عصری علوم میں بھی اپنی ذہانت کا لوہا منوایا ہے۔انکے پاس وسائل تھے نہ ہی بہترین سکولز اور اکیڈمیوں میں پڑھنے کی سہولت تھی لیکن اسکے باوجود انکی کارکردگی مثالی ہے ،مدارس بارے توہین آمیز سوچ رکھنے والے سیکولر طبقے ، اور نام نہاد سکالرز کو اللہ نے اگر آنکھیں دی ہیں تو وہ ان پر پڑا جہالت کا پردہ اٹھا دیکھیںکہ بوریا نشینو ںنے اربوں روپے کے سرکاری فنڈز استعمال کرنیوالے سکولز کی کارکردگی کا پول کھو ل دیا ہے ۔یاد رہے کہ مدارس میں سکول کی تعلیم سے متعلقہ انگریزی ، ریاضی اور دیگر مضامین جزو وقتی انداز میں پڑھائے جاتے ہیں۔یعنی مدارس کے طلبہ قرآن وحدیث کے اپنے نصاب کی تعلیم کیساتھ ساتھ کچھ وقت عصری تعلیم کو دیتے ہیں۔ دوسری جانب ہمارے معاشرے کا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ اکثر اوقات غریب گھرانوں کے بچے ہی مدارس میں زیر تعلیم ہوتے ہیں۔خاندان میں جو بچہ سب سے کم فہم اورذہنی طور پر کمزور ہو گا اسے مدرسے کی تعلیم کیلئے منتخب کیا جاتا ہے ،ساہیوال بورڈ میں اول پوزیشن حاصل کرنیوالے محمد مصعب کے والدمحمد سعید پھل فروش ہیں۔ اس بچے کو تعلیمی اخراجات نہ ہونے کی وجہ سے سکول سے اٹھا کر مدرسے میں داخل کرایا گیا تو اس بچے نے اپنی ذہانت کے بل بوتے پر کم ترین وسائل میں ڈویژن بھر میں اول پوزیشن حاصل کی۔ مدارس کے ان طلبہ نے حکومت کے بنائے گئے نظام تعلیم ، نصاب اور طریقہ امتحان میں اپنی صلاحیت کا لوہا منوا کر ثابت کر دیا ہے کہ ان کا تعلق ’’جہالت کی فیکٹریوں‘‘ سے نہیں بلکہ علم وشعور کے سرچشموں سے ہے۔جامعہ دارالعلوم الاسلامیہ کی نشاۃ ثانیہ کے بعد استاد الحدیث مولانا مشرف علی تھانوی اور استاذ القراء ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی نے مل کر جو نصاب تعلیم تشکیل دیا تھا آج درالعلوم کراچی جیسے بڑے مدارس بھی اس کو فالو کرتے نظر آتے ہیں۔ قاری احمد میاں تھانوی پاکستان کے واحد قاری ہیں جنہوں نے رسم عثمانی میں پی ایچ ڈی کی ہے انکے زیر سایہ آج سینکڑوں طلباء ایم فل، ایل ایل بی، اور پی ایچ ڈی کر رہے ہیں۔ استاذ القراء ڈاکٹر قاری احمد میاں تھانوی حفظہ اللہ، مولانا فضل الرحیم اور ڈاکٹر مولانا راغب حسین نعیمی نے تو اپنے اپنے مدارس میں تعلیمی نظام بہتر کیے ہوئے ہیں لیکن اگر آپ جامعہ ہجویریہ کے نصاب کا جائزہ لیں تو محکمہ اوقاف پنجا ب کے تحت یہ ایک ماڈل مدرسہ ہے جس میں عصری علوم کیساتھ ساتھ انگلش، عربی لینگوئج /کمپیوٹر لیب/ موبائل ریپیئرنگ بھی سکھائی جاتی ہے جس کا کریڈٹ ڈی جی اوقاف ڈاکٹر طاہر رضا بخاری کے علاوہ سابق سیکرٹری اوقاف شہریار سلطان اور نیر اقبال کو بھی جاتا ہے۔ مجھے امید ہے کہ موجودہ سیکرٹری اوقاف نوازش علی بھی اس کو مزید وسعت دینگے۔ دینی مدارس، قرآن و حدیث کے سرچشمہ ہائے نور ہیں انکی دیکھ بھال اور بہتری ہم سب پر لازم ہے۔

مزیدخبریں