وزیراعظم نوازشریف کا کشمیریوں کے حق خودارادیت کا معاملہ ہر فورم پر اٹھانے کا اعلان اور سرینگر میں بھارتی فوج کی شیلنگ
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ہمارے دل مقبوضہ کشمیر کے بھائیوں کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘ ہم انکے شانہ بشانہ کھڑے ہیں‘ مسئلہ کشمیر اقوام متحدہ کا نامکمل ایجنڈا ہے‘ پاکستان اخلاقی اور سفارتی سطح پر ہمیشہ کشمیری بھائیوں کے حق خودارادیت کی تائید و حمایت کرتا رہے گا‘ ہم انکے حق خودارادیت کا معاملہ ہر فورم پر اٹھائیں گے۔ گزشتہ روز وزیراعظم ہاﺅس اسلام آباد میں آزاد جموں و کشمیر اسمبلی کے مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب ارکان سے ملاقات اور خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق استصواب کشمیریوں کا بنیادی حق ہے جس کیلئے ہم ہر فورم پر آواز بلند کرینگے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر کے عوام نے ان پر جس اعتماد کا اظہار کیا‘ وہ اس پر پورا اتریں گے اور بلاامتیاز تمام کشمیری بھائیوں کی فلاح و بہبود کیلئے دن رات ایک کردینگے۔ انہوں نے مسلم لیگ (ن) کے نومنتخب رکن کشمیر لیجسلیٹو اسمبلی راجہ فاروق حیدر کو وزیراعظم کیلئے نامزد کرنے کا بھی اعلان کیا۔
مقبوضہ کشمیر میں نہتے اور معصوم کشمیری عوام بالخصوص خواتین‘ بچے اور نوجوان گزشتہ تین ہفتے سے غاصب بھارتی فوجوں کے جس ظلم و بربریت کا نشانہ بن رہے ہیں اور بھارتی فوج اور پیراملٹری فورسز انکے قتل عام کے علاوہ پیلٹ فائرنگ کے ذریعے نوجوان کشمیری خواتین اور مردوں کو مستقل طور پر بینائی سے محروم کر رہی ہیں‘ یہ آزادی کی تحریکوں کا گلا دبانے کا بدترین اور دنیا بھر میں اچھوتا ہتھکنڈہ ہے۔ ان بھارتی مظالم کی بنیاد پر ہی آج اقوام عالم میں مسئلہ کشمیر کے حل کی اہمیت بھی اجاگر ہوگئی ہے اور اس حقیقت کا بھی ادراک ہو گیا ہے کہ کشمیری عوام کو یواین قراردادوں کے مطابق حق خودارادیت دیئے بغیر علاقائی اور عالمی امن کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا چنانچہ عالمی قیادتوں اور اداروں کی جانب سے کشمیریوں کے حق خودارادیت کیلئے بھارت پر دباﺅ بڑھایا جارہا ہے۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ عالمی دباﺅ کے پیش نظر مسئلہ کشمیر کے قابل عمل حل کا سوچنے اور اس کیلئے پیش رفت کرنے کے بجائے بھارت نے کشمیر پر اپنی اٹوٹ انگ والی ہٹ دھرمی کو فروغ دینا شروع کر دیا ہے اور کل تک پاکستان کے ساتھ امن اور صلح کی باتیں کرنیوالی بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج بھی پاکستان کو طعنے دے رہی ہیں کہ اس کا ”کشمیر بنے گا پاکستان“ کا خواب کبھی شرمندہ¿ تعبیر نہیں ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ بھارتی فوجوں اور پیراملٹری فورسز کے کشمیری عوام پر ظلم و جبر کے حربوں میں بھی کوئی کمی پیدا نہیں ہونے دی جا رہی اور گزشتہ تین ہفتے کے دوران بھارتی فوجیں تشدد اور فائرنگ کی مختلف کارروائیوں میں 60 کے قریب کشمیریوں کو شہید کرچکی ہیں جن میں اکثریت نوجوان کشمیریوں کی ہے۔ سری نگر سمیت مقبوضہ وادی میں کرفیو کا مسلسل نفاذ ہے‘ اسکے باوجود آزادی کے متوالے کشمیری باشندے نئے جوش و جذبے کے ساتھ گھروں سے نکل کر سڑکوں پر آتے ہیں اور ظالم بھارتی فوجوں کے آگے سینہ سپر ہو جاتے ہیں جبکہ بھارتی افواج انکے سینے چھلنی کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہیں۔ گزشتہ روز بھی سری نگر میں بھارتی فوجوں کے سامنے آنیوالے کشمیری باشندوں پر بے دریغ شیلنگ اور پیلٹ فائرنگ کی گئی جس کے نتیجہ میں ایک بزرگ کشمیری شہید اور 20 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ بھارتی فوجوں نے زخمیوں کی طبی امداد کیلئے آنیوالے پاکستان میڈیکل مشن کو بھی آگے جانے سے روک دیا۔ اسی طرح مقبوضہ وادی میں انٹرنیٹ سروس بھی دوبارہ بند کر دی گئی ہے اور مظاہرین کو روکنے کیلئے فوج اور پولیس حرکت میں آگئی ہے۔ اسکے باوجود کشمیری عوام کے حوصلے پست نہیں ہو ئے اور وہ اپنے جسموں پر لاٹھی گولی کھاتے اور نعرہ¿ مستانہ لگاتے اپنی منزل کی جانب بڑھتے ہی چلے جا رہے ہیں۔ اس سلسلہ میں گزشتہ روز مظفرآباد میں ہزاروں کشمیریوں نے پولیس مظالم کیخلاف احتجاج کیا اور تشدد پر اتری بھارتی فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کردیا۔
بھارتی مظالم کا سلسلہ صرف مقبوضہ کشمیر ہی میں نہیں‘ پورے بھارت میں نسلی اور مذہبی بنیادوں پر جاری ہے اور ہندو انتہاءپسندوں نے مسلمان اقلیتوں پر ظلم و جبر کے پہاڑ توڑتے ہوئے انکی زندگیاں اجیرن بنا دی ہیں۔ گزشتہ روز بھارتی ریاست مدھیاپردیش کے ریلوے سٹیشن پر گائے کا گوشت لے جانے کے شبہ میں ہندو انتہاءپسندوں نے دو مسلمان خواتین کو لاتوں‘ گھونسوں اور تھپڑوں سے تشدد کا نشانہ بنایا جس کی رپورٹ غیرملکی میڈیا پر آنے کے باعث پوری دنیا نے اس سفاکی کا نوٹس لیا۔ یہ طرفہ تماشا ہے کہ جنونی ہندوﺅں کی جانب سے بے بس مسلمان خواتین کو تشدد کا نشانہ بنانے کے دوران بھارتی پولیس بھی وہاں موجود ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنی رہی اور ہندو آبادی کے لوگوں نے بھی بھارتی پولیس کو تشدد سے روکنے کی کوئی کوشش نہ کی جبکہ مقامی ڈاکٹروں نے ان خواتین سے برآمد ہونیوالے گوشت کا معائنہ کرنے کے بعد بتایا کہ یہ گائے کا نہیں‘ بھینس کا گوشت ہے۔
اگرچہ بھارتی راجیہ سبھا میں بھی ہندوﺅں کی اس جنونی کارروائی کی صدائے بازگشت سنی گئی ہے اور مختلف طبقات زندگی کے بھارتی عوام کی جانب سے بھی مقبوضہ کشمیر میں کشمیری نوجوانوں کو اندھا بنانے کی ظالمانہ کارروائیوں کیخلاف صدائے احتجاج بلند کی جا رہی ہے۔ اسکے باوجود بھارت کی مودی سرکار کشمیریوں کے حق خودارادیت کے تقاضے پر کان دھرنے پر آمادہ نہیں اور جدوجہد آزادی میں مصروف کشمیری عوام کا راستہ روکنے کے نئے نئے حربے اختیار کئے جارہے ہیں جس سے یہ حقیقت کھل کر سامنے آرہی ہے کہ بھارت کو اپنے جنونی اقدامات کی بنیاد پر عالمی اور علاقائی امن کیلئے بڑھتے ہوئے خطرات سے کوئی سروکار نہیں ہے اور وہ مذاکرات کے ذریعہ مسئلہ کشمیر کا کوئی حل نکالنے کے بجائے اپنی جنگی و دفاعی طاقت میں اضافے کے زعم میں پاکستان پر بھی نئی جنگ مسلط کرنے کی منصوبہ بندی میں مگن نظر آتا ہے۔ اس مقصد کیلئے ہی بھارت نے حال ہی میں امریکی کمپنی سے مزید چار جاسوس طیارے خریدنے کا معاہدہ کیا ہے جن کے بحرہند اور خلیج بنگال میں استعمال کئے جانے کا عندیہ بھی دیا جارہا ہے۔ اسکے برعکس پاکستان کشیدگی کے اس ماحول میں بھی بھارت کے ساتھ مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر آمادہ ہے اور خطے میں قیام امن کی خاطر پاکستان نے بھارتی سرحدی فورسز کے ساتھ سیزفائر کی خلاف ورزی نہ کرنے پر بھی اتفاق کرلیا جبکہ سیزفائر کی خلاف ورزی ہمیشہ بھارت کی جانب سے کی جاتی ہے جس نے آج بھی کنٹرول لائن پر انتہائی کشیدگی کی فضا قائم کر رکھی ہے اور گزشتہ روز پاکستان رینجرز پنجاب اور بھارتی بارڈر سکیورٹی فورس کے مابین رینجرز ہیڈکوارٹرز لاہور میں ہونیوالی میٹنگ کے دوران بھارتی وفد نے پٹھانکوٹ واقعہ کو اس میٹنگ کے ایجنڈے میں شامل کرانے کی کوشش کی جس کا مقصد سرحدی کشیدگی ہرصورت برقرار رکھنے کا ہی تھا۔ تاہم پاکستانی حکام نے اس بنیاد پر یہ تجویز مسترد کر دی کہ پٹھانکوٹ کا واقعہ بھارت کا اندرونی معاملہ ہے جس کا کسی سرحدی تنازعہ سے کوئی تعلق نہیں۔ اس صورتحال میں یہ طے شدہ امر ہے کہ بھارت مذاکرات کی میز پر کشمیریوں کا حق خودارادیت کا تقاضا کبھی تسلیم نہیں کریگا اور نہ وہ عالمی دباﺅ کے بغیر مسئلہ کشمیر کے یواین قراردادوں کے مطابق حل کی راہ پر آئیگا۔ آج بھارت کشمیری عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑ کر خود ہی عالمی قیادتوں‘ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی دوسری عالمی تنظیموں کو اپنی جانب متوجہ کر رہا ہے اس لئے یہی موقع ہے کہ ہم اپنی تمام تر سفارتی کوششیں بروئے کار لا کر عالمی برادری کو بھارت پر مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے دباﺅ بڑھانے پر آمادہ کریں اور ممکنہ بھارتی جنونی اقدامات کے توڑ کیلئے بھی مکمل تیاری رکھیں۔ اب ہم کسی بھی حوالے سے دشمن کے عزائم سے غافل ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ بھارت امن و آشتی کی زبان نہیں سمجھ رہا تو اسکے ساتھ ”ایسے کو تیسا“ والی پالیسی ہی اختیار کرنا ہوگی۔