کراچی ایک عرصے سے امن و امان کے مسئلے کی وجہ سے اندرون و بیرونِ ملک توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ متعدد بار اپریشن ہوئے، گروہ پکڑے گئے ، اسلحہ بر آمد ہوا اور کئی مجرم اپنے انجام کو پہنچے ۔ پھر بھی سٹریٹ کرائمز اور ٹارگٹ کلنگ کا مدو جزر ہمیشہ ہی نظر آتا رہا۔ رینجرز اور پولیس نے بہت جانفشانی سے کام کیا جس سے عوام خاصی حد تک مطمئن ہوئے۔ مگر معاملات پر سیاست غالب آگئی اور کچھ مقامات ایسے بھی آتے رہے جہاں سیاسی حکمرانوں نے فورسز کی امداد کرنے کی بجائے ان کی راہ میں روڑے اٹکائے۔
پچھلے دور میں سپریم کورٹ نے اسوقت کی تینوں حکمران پارٹیوں ایم کیو ایم ، پیپلز پارٹی اور ANPکے مسلح جتھوں کی واضح نشان دہی کی مگر تینوں نے اُس سے زیادہ واضح الفاظ میں انکار کر دیا۔ انصاف اور گڈ گورننس کا تقاضا تو یہ تھا کہ اس پر کوئی سیاسی اور عوامی سطح پر پیشرفت ہوتی لیکن اتنی بڑی بات کو بالائے طاق رکھ دیا گیا۔کون نہیں جانتا کہ عدالت کی یہ فائنڈنگ درست تھی مگر ہم لوگوں نے سوچوں پر بھی سمجھوتا کرلیا ہے۔اپنی آنکھوں سے گناہ دیکھ کر بھی عذرِ گناہ پر زیادہ مطمئن ہوجاتے ہیں۔
تین سال پہلے وفاق اورصوبوں میں نئی حکومتوں کی تشکیل ہوئی مگر صوبہ پنجاب اور سندھ میں وہی پارٹیاں اور وہی وزیر اعلیٰ بر سر اقتدار رہے۔ پنجاب میں تویہ تسلسل قبول کیا جا سکتا تھا مگر سندھ کے حالات کچھ خاص تبدیلیوں کے متقاضی تھے جن میں سے ایک بھی نہ لائی گئی۔ ANPتھوڑا پیچھے ہوگئی اور معاملات خالصتاًپیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ہاتھ میں چلے گئے۔وہی غیر فعال بزرگ وزیراعلیٰ، وہی سدا بہار کمپرومائزڈ گورنر ، وہی وزرائ، وہی حکومتی روّیے اور پالیسیاں چلتی رہیں۔دونوں پارٹیاں بیک وقت ایک دوسرے پر الزامات اور تعاون کے ساتھ نظریہ¿ بقائے باہمی پر عمل پیرا رہےں۔کسی نے بھی دہشت گردوں کو نہ کبھی ا ز خود بے نقاب کرنے کی کوشش کی نہ اس میدان میں اترنے والے اداروں کی عملی طور پر روٹین سے ذرا آگے کوئی مدد کی۔
فورسز نے اپنا کام جاری رکھا اور چھوٹے مجرموں کی بیخ کنی کرتے کرتے وہ سٹیج آگئی جہاں سے بڑے مجرم پہچانے جاسکتے تھے۔یہ تو ایک عام فہم سی بات ہے کہ اتنے بڑے پیمانے پر ، اتنے سالوں تک دہشت گردی بڑے سہولت کاروں اور ماسٹر مائنڈز کے بغیر نہیں ہوسکتی ۔مگر یہ امر بھی کسی سے پوشیدہ نہیں کہ ایسے لوگ ڈھیر سارے قانونی اور سیاسی پردوں میں لپٹے ہوئے ہوتے ہیں جنہیں چاک کرنا آسان نہیں ہوتا۔
ایم کیو ایم کے ہیڈ کوارٹر پر ریڈ کیا گیا جس میں کافی اسلحہ اور مشتبہ افراد پکڑے گئے۔جماعت نے انتہائی شوروغوغا کے ساتھ ملحقہ گھروں سے پکڑے جانے والے لوگوں سے قطع تعلق کا اعلان کر دیا اور درجنوں ہتھیاروں کے لائسنس بعد میں پیش کرنے کا وعدہ کیا۔حالانکہ نہ تو ان گھروں میں کوئی انکی مرضی کے بغیر آسکتا ہے اور نہ ہی اسلحہ لائسنسی تھا۔اطلاعات کے مطابق پکڑے جانے والے غیر قانونی اسلحہ کے لائسنس سندھ حکومت نے انہیں پچھلی تاریخوں میں بنا کر دئیے اور اپنی ملی بھگت کی لاج رکھ لی ۔سات سمندر پار سے ان کے قائد نے فورسز پر مغلظات کے ساتھ بے حد الزامات لگائے۔ پھر جب پیپلز پارٹی کے رسہ گیروں کی طرف ہاتھ بڑھا تو وہ پارٹی بھی سیخ پا ہوگئی ۔ان کے قائد زرداری صاحب نے تو فوج کی اینٹ سے اینٹ بجانے کی دھمکی دیکر الطاف حسین کی طرح اپنا ہیڈکوارٹر بیرونِ ملک منتقل کرلیا اور اب وہیں سے قوم کی ’خدمت‘کر رہے ہیں۔
کاش عوام یہ پوچھنے کی اہلیت رکھتے کہ اگر دونوں پارٹیوں کے اپنے اندر ایسے لوگ موجود نہیں تو پھر دونوں حکمران پارٹیاں ملکر ان لوگوں کو پکڑتے کیوں نہیں جنھوں نے عوام کا جینا دشوار کررکھا ہے؟ دونوں بحیثیت صوبائی حکومت فعال ہو کر ان فورسز کا ساتھ کیوں نہیں دیتے جو آئے دن شہادتیں دیکر انکے لئے تحفظ عامہ پر مامور ہیں ؟ ہم کیسی قوم ہیں جن کے باقاعدہ حکومتی فیصلے دبئی،انگلینڈ،امریکہ اور جدّہ میں ہوتے ہیں جبکہ بے قاعدہ پالیسیاں انڈیا، افغانستان سمیت کہیں بھی ممکن ہیں۔اسی ہفتے ہندوستانی اخباروں نے سرخی لگار رکھی ہے کہ ”کشمیر کا خواب چھوڑو ،کراچی سنبھالو“۔ دیکھئیے آگے کیا ہوتا ہے۔
پچھلے دو ماہ سے کراچی میں ایک نئی ہلچل سی نظر آ رہی ہے۔ جسکا آغاز چیف جسٹس سندھ ہائیکورٹ کے بیٹے کے اغوا سے ہوا۔ اس کے محرکات پر تو کئی تھیوریاں گردش کر رہی ہیں مگر یہ چیز پہلے دن سے ہی رینجرز کے علم میں آ گئی کہ اس میں پولیس جیسی گاڑی استعمال ہوئی تھی۔ تفتیش کے دوران وہ پولیس کی ہی ثابت ہوئی۔ اسی فالواَپ میں صوبائی وزیر داخلہ سہیل انور سیال کے بھائی کے دوست اسد کھرل کا نام آیا جسکی لاڑکانہ میں رینجرز کے ذریعے گرفتاری پر صوبائی حکومت نے شدید ردعمل کا مظاہرہ کیا۔چیف منسٹر نے دو ٹوک الفاظ میں کراچی سے باہر کسی جگہ پر بھی رینجرز کی کارروائی کو غیر قانونی قرار دے دیا اور رینجرز کی تعیناتی و اختیارات کا حکم مو¿خّر کردیا۔ جو ایک ہفتہ اوپر گذر جانے کے بعد بھی سائن نہیں کیا گیا۔ یہ ایک واقعہ نہیں بلکہ سندھ حکومت کے اصلی چہرے کی رو نمائی تھی۔اسی دوران مشہور نوجوان قوال امجد صابری کی شہادت نے ہر طرف رنج و غم اور سنسنی کی فضا پھیلادی۔پھر مزید وارداتیں اور فوجی گاڑی پر فائرنگ سے دوجوانوں کی شہادت، جس دن متحدہ کے وسیم اختر کیطرف سے 12مئی 2007ءوالی قتل و غارت میں الطاف حسین کے آلہءکاربننے کے اعتراف کی خبر آئی۔ ان سب واقعات سے نئے چیلنجز سامنے آتے محسوس ہوتے ہیں۔
پیپلز پارٹی نے سندھ اسمبلی میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا ہے جو عام طور پر ایک ہلکے پھلکے تماشے کی طرح لیا جارہا ہے۔عام تاّثر یہ ہے کہ جب تک زرداری صاحب فعال رہتے ہیں ایسی تبدیلیاں کوئی معنی نہیں رکھتیں ۔ مگر میرے نزدیک کچھ اچھی توقع بھی کی جاسکتی ہے۔وہ اس لئے نہیں کہ بڑے مجرم تو بہ تائب ہونیوالے ہیں بلکہ اس لئے کہ وہ مستقبل میں پنجاب کی طرح سندھ میں بھی کمزور ہونا برداشت نہیں کر سکتے ۔ بلکہ سندھ میں مضبوط ہونے کے بعد ہی وہ پنجاب واپسی کا سوچ سکتے ہیں۔شائد ان کی پلاننگ میں مراد علی شاہ کو بلاول کے ساتھ ملکر دو سال میں حالات ٹھیک کرنے کا ٹاسک دیا جائے گا۔تاکہ بلاول کو 2018ءکے انتخابات میں چیف منسٹر سندھ اور 2023ءمیں وزیراعظم کیلئے تیار کیا جا سکے۔اس ٹارگٹ کو حاصل کرنے کیلئے انہیں سندھ میں فوری طور پر واقعتاً کچھ ڈیلیور کرنا ہوگا جو کم از کم اَمن ہے۔رینجرز کو پورے سندھ میں اختیارات دینے ہوں گے۔ یہ کتنی مضحکہ خیز بات ہے کہ کراچی سے باہر بیٹھ کر کوئی بھی گروہ کراچی کے اندر وارداتیں کرے تو اسے رینجرز کے فالو اپ کا ڈر نہ ہوگا۔ایک صوبے میں دو قانون کی بنیاد پر کراچی کو علیحدہ صوبہ بنانے کا مطالبہ بھی زور پکڑ سکتا ہے۔
انہی دنوں میں اٹھنے والے صابری اور ایدھی صاحب کے جنازوں نے یہ واضح کردیا ہے کہ ہمارے لوگ بے ضرر اور باثمر لوگوں سے کتنا پیار کرتے ہیں لہٰذا عوامی شمولیت سے حالات سدھارے جا سکتے ہیں بشرطیکہ ارباب اقتدار کی نیّت ٹھیک ہو۔