لاہور (وقائع نگار خصوصی) سپریم کورٹ میں بچوں کے اغوا کیخلاف ازخودنوٹس کی سماعت میں پولیس نے رپورٹ پیش کر دی۔ عدالت نے قرار دیا کہ معاملہ انتہائی حساس نوعیت کا ہے اس کی تہہ تک جائیں گے۔ انتظامیہ غفلت کا مظاہرہ نہ کرتی تو سپریم کورٹ کو از خود نوٹس نہ لینا پڑتا۔ یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی والدین کی مار پیٹ سے ڈر کر بچے گھر سے بھاگے۔ ایڈیشنل آئی جی کی تحریری رپورٹ کے مطابق 2011 سے 2016 تک مجموعی طور پر پنجاب میں 6793 بچے اغوا ہوئے۔ پولیس نے گذشتہ چھ برس میں 6654بچے بازیاب کرائے جبکہ 139بچوں کے اغوا کے معاملہ پر تفتیش جاری ہے۔ 2015 میں 1134 بچے اغوا اور 1093 بچے بازیاب ہوئے۔ 2016 میں 767 بچے اغوا اور 715 بچے بازیاب کرا لیے گئے۔ اغوا کے زیادہ تر کیسز لاہور، روالپنڈی، فیصل آباد، بہالپور اور بہاولنگرکے اضلاع میں ہوئے۔ مغوی بچوں کی زیادہ تر عمریں 6سے پندرہ سال تک ہیں۔ مجموعی طور پر 100 میں سے 98فیصد بچوں کو بازیاب کرایا گیا۔ زیاہ تر بچے لاری اڈہ، بس سٹاپ پارکس اور ریلوے سٹیشن سے اغوا ہوئے۔ اغوا برائے تاوان کے 4کیسز سامنے آئے۔ جس میں تمام بچوں کوبازیاب کرا لیا گیا۔ عدالت نے پولیس کو آئندہ سماعت تک اغواء ہونے والے بچوں کے مقدمات میں ہونے والی تفتیش سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیدیا۔ سماعت 3 اگست تک ملتوی کرتے ہوئے آئندہ سماعت پربچوں کے والدین اور سول سوسائٹی کے نمائندوں کو عدالتی معاونت کے لئے طلب کر لیا۔ صباح نیوز کے مطابق پولیس رپورٹ میں کہا گیا گجرات اور گردونواح میں مغوی بچوں کے جسمانی اعضاء فروخت کرنے سے متعلق شکایات پر کام کر رہے ہیں۔ عدالت نے کہا کہ والدین تھانوں پر واویلا کرتے رہتے ہیں، مقدمہ درج نہیں ہوتا۔ ریاست عوام کے جان و مال کا تحفظ نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ جسٹس ثاقب نثار نے اس پر کہا یہ رپورٹیں سپریم کورٹ کو دکھانے کے لئے لائے ہیں یا صوبے کے سربراہ کو، عارف نواز نے جواب دیا یہ رپورٹس سپریم کورٹ کے روبرو پیش کرنے کے لئے لائے ہیں، سپریم کورٹ جلد نتائج دیکھے گی اورخوش ہوگی۔ جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیئے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ عوام کی جان و مال کا تحفظ کرے، ایسا نہ کرے تو عدلیہ کو مداخلت کرنا پڑتی ہے۔ اغواء ہونیوالے دس بچوں کی تفتیش کا ریکارڈ عدالت میں پیش کریں، ایسے بچے بھی ہیں جو تاوان کے لئے اغواء ہوتے ہیں لوگ پیسے دیکر کر چھڑا لیتے ہیں، ایسے کیسز میں لواحقین مقدمے درج نہیں کراتے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا بچوں کو جسمانی اعضا فروخت کرنے کے لئے بھی اغواء کیا جاتا ہے۔ پولیس کی رپورٹوں پر اس معاملے کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، ہرشہری کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت کے معاونت کرے اور حقائق بتائے۔ پولیس رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ بچے 2011ء میں اغوا ہوئے جن کی تعداد 1272 بچے ہے ان میں سے 1264 بچے بازیاب ہو گئے۔ 2012ء میں اغوا ہونے والے 1260 بچوں میں سے 1156 کو بازیاب کرا لیا گیا، سال 2013ء میں 1156 بچے اغوا ہوئے اور صرف 16 بچے بازیاب نہ ہو سکے۔