سید ذوالوقار احمد چشتی معینی اجمیری
قران کریم میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔ وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون (اور میں نے جو بنائے جن اور آدمی سو اپنی بندگی کو)۔ انسان ہونے کا شرف اسی وقت ہے جب وہ اس بندگی کا حق ادا کرے۔انسانی تاریخ کے مطالعہ سے پتا چلتا ہے کہ ہر ہر دور میں اللہ کے ایسے بندے موجود رہے ہیں جو اس بندگی کی حقیقیت سے اپنے اپنے مقام اور مرتبہ کے اعتبار سے آشنا رہے ہیں ۔ اگر چہ کہ اس معرفت کا تخم قدرت نے ہر انسان کے اندر رکھا ہے لیکن کہیں تو یہ بیج کا بیج ہی رہااور کہیں یہ پھوٹ کر ایک ہرا بھرا تناور درخت بن گیا۔ ایسا سایہ دار درخت جس کی چھائوں ان سے تعلق رکھنے والے افراد کے لئے سورج کی تپش سے بچنے کا ذریعہ بنی۔ دور گذشتہ میں ایک ایسی ہی ایک شخصیت نے اجمیر شریف کی پرنور فضائوں میں جنم لیا ۔ اس شخصیت کا نام سید ذوالفقار احمدچشتیؒ ہے۔
ٓآپ اجمیر شریف کے ایک معزز و معتبر خانوادے میں پیدا ہوئے جن کے ہاں نسل در نسل حضور سیدنا غریب نوازؒ کی بارگاہ کی تولیت کا شرف موجود رہا۔ حضرت خواجہ خواجگاں معین الدین چشتی ؒ کی بارگاہ میں بچپن اور جوانی کے ایام گزارے۔ اپنے دور کے نابغئہ روزگار علماء و صلحاء کی صحبت سے مستفیض ہوئے۔ اور پاکستان کی سر زمین پر ایک چشتی درویش کے روپ میں نائب الرسولؐ فی الہند اشرف اولیائے رئو ے زمیں خواجہ کل خواجگاں معین الدین حسن چشتیؒ سے عقیدت اور محبت کی خوشبوئیں بکھیرتے فیصل آباد کے شہر کو اپنا آخری مسکن بنایا۔
آپ کی شخصیت ہر ملنے والے کا دل موہ لیتی تھی۔آپ کی گفتار میں ایسی چاشنی تھی کہ ملنے والے گھنٹوں بیٹھے رہتے اور وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا۔عموماََتہبند ایک سادہ قمیض اور سرپر ایک سادہ رومال زیب تن رہتا۔ جائے نماز ہی آپکا اوڑھنا بچھونا تھی قران پاک کی تلاوت آپکا معمول اور ادووظائف کی پابندی اور ہمہ وقت تسبیح کا ساتھ ۔ آخری سانس تک آپکا یہی طریق رہا۔
حضور غریب نوازؒ سے خصوصی تعلق اور عقیدت و محبت آپکا سرمایۂ حیات تھی ۔عشق و محبت کی یہی تپش آپ کے قلب و روح میں جاگزیں تھی۔ یہی وجہ تھی کہ ایک وظیفۂ خاص کی اجازت بنفس نفیس سلطان الہند غریب نواز ؒ نے خود آپ کو عطا فرمائی۔آپ کبھی کبھی اپنے مخصوص متعلقین سے اسکا ذکر بڑی محبت سے فرماتے۔ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ اسی وظیفہ کے دوران کیا دیکھتے ہیں کہ ایک شیر آپ کے مقابل حملہ کرنے کے انداز میں کھڑا ہوگیا۔ یہ خواب کی کیفیت نہیں تھی۔ طبیعت میں کچھ خوف کی کیفیت پیدا ہوگئی جو کہ بشریت کا تقاضا ہے اورایسا لگا کہ اب بس آخری وقت آگیا ہے۔ لیکن دل بحر حال مطمئن رہا کہ جنہوں نے یہ وظیفہ عطا کیا ہے وہی اس کو سنبھالنے والے بھی ہیں ۔ اچانک دیکھتے ہیں کہ ایک سفید ریش بزرگ ہاتھ میں خنجر لئے نمودار ہوئے اور آناََفاناََ اس شیر کا خاتمہ کر دیا۔ اس کے بعد نہ شیر رہا اور نہ ہی خوف کی کیفیت۔فرماتے ہیں کہ وہ دن ہے اور آج کا دن یہ وظیفہ حسب معمول جاری و ساری ہے اور پھر کبھی اس قسم کی کیفیت سے واسطہ نہ پڑا۔
کبھی کبھی کسی خاص موقعہ پر کچھ لوگوں کے لئے فرمایا کرتے کہ دیکھو ان کو کہ بنے ہیں خاک در خواجہ سے اور اپنے نام و نمود کی خاطر اس دربانی کو چھوڑ کر اپنا تعلق دوسری جگہ جوڑتے ہیں ۔آپ غریب نوازؒ سے عقیدت و محبت کے سامنے کسی شئے کو خاطر میں نہ لاتے۔ چشتیت آپ کے رگ و پے میں رچی بسی تھی۔ یہی خوشبو اور یہی مہک آپ کی محافل میں ہر وقت موجود رہتی ہرملنے والا اس سے مستفیض ہوتا۔ بلکہ بقول امیر خسرو کیفیت کچھ اس طرح کی رہتی کہ’’ وہ تو جب دیکھومورے سنگ ہے ری ماں‘‘۔
شب بیداری آپ کا معمول تھی۔رات کے تیسرے پہر نوافل کی کثرت رہتی۔آنکھوںسے آنسو جاری رہتے اور دعا کے لئے ہاتھ بلند رہتے۔ یہ کیفیت فجر کے وقت تک رہتی۔پھر فجر کی نماز سے فارغ ہو کر اورادووظائف کا سلسلہ جاری رہتا۔ سورج نکلنے کے بعد پھر یہی جانماز آپ کی جائے استراحت بن جاتی اسی جائے نماز پر ظہر کے وقت تک آرام فرماتے ۔ظہر کی نماز سے فارغ ہونے کے بعدسادہ ناشتہ فرماتے اور پھر گھر والوں سے گفت وشنید کا سلسلہ رہتا۔اس کے بعد پھر تسبیحات کا سلسلہ جاری ہوجاتا۔ اسی دوران اپنے دیگر وظائف کا ورد بھی رہتا۔عشاء کے بعد پھر ملاقات و گفت وشنید کا سلسلہ رہتا۔
اجمیر شریف سے آکر آپ کا پہلا مسکن گولڑہ کی سرزمین بنی جب اسلام آباد کا نام ونشان بھی نہ تھا۔آپ کے ساتھ آپ کے برادران خورد سید بختیاراحمد چشتیؒ اور سید برکات احمد چشتیؒ اور آپ کی ہمشیرہ سیدہ سعیدہ بی بی اور ان کے خاوندسید تلطف حسین صاحب معینی۔ اس کے علاوہ خاندان کے ایک اور فرد سید ظہور احمد صاحب بھی آپ کے ساتھ اس جگہ رہائش پذیر ہوئے۔کئی برس آپ کا قیام یہیں رہا۔ اس دوران ہر سال اجمیر شریف حاضری اورکئی کئی ماہ اجمیر شریف اپنی حویلی میں قیام رہتا۔ اجمیر شریف میں بھی خاندان کے دیگر افراد آپ کی آمد کے منتظر رہتے۔اور تمام افراد ان خوشگوار لمحات سے محظوظ ہوتے۔
1967 میں آپ کی خوشدامن جب اجمیر شریف سے براستہ کراچی حج پر تشریف لے جاتے وقت گولڑہ شریف تشریف لائیں تو آپ نے بھی ان کے ساتھ کراچی جانے کاقصد فرمایا۔کراچی اس وقت واقعی روشنیوں کا شہر تھا۔کراچی کی فضا آپ کو بھا گئی۔اس کے بعد آپ نے کراچی کو اپنا مسکن بنالیا۔کراچی میں قیام کے دوران ہی آپ کی زوجۂ محترمہ کے والد سید یوسف میاں مہاراج نے اپنی اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ فیصل آباد کو اپنا مسکن بنائیں۔والدگرامی قدر حضرت سید اسرار احمد صاحب چشتی کی اجازت سے فیصل آباد منتقل ہوگئے۔لیکن پھر کچھ عرصہ قیام کے بعداپنے صاحبزادہ سید محمد ذوالوقار چشتی کی تعلیم کی وجہ سے دوبارہ کراچی منتقل ہو گئے۔ البتہ فیصل آباد آمد ورفت کا سلسلہ جاری رہا۔
کراچی ہی میں آپ نے اس دارفانی سے کوچ فرمایا۔آپ کے صاحبزادہ کی خواہش کے مطابق آپ کی تدفین فیصل آباد میں حضرت سید ظہور میاں مہاراج جو کہ آپ کی زوجہ کے دادا ہوتے ہیں ان کے مزار سے متصل عمل میں آئی۔
ٓٓٓآپ کا مزار آج بھی مرجع خلائق ہے۔جہاں ہر سال نو ذوالقعدہ کو آپ کے سالانہ عرس کی تقریب کا انعقاد نہایت عقیدواحترام سے کیا جاتا ہے۔
خدارحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
حضرت سید ذوالفقاراحمد چشتی اجمیری ؒ
Jul 29, 2017