تاریخ ساز فیصلہ

پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے سات دہائیوں کا عرصہ بیت چکا، ستر سال کم نہیں ہوتے۔ قائدِ اعظم محمد علی جناح اور نوابزادہ لیاقت علی خان جلد دنیا سے رخصت ہو گئے اس کے بعد ملک میں اقتدار کے لئے سانپ اور سیڑھی کا نہ ختم ہونے والا ایسا بھیانک کھیل شروع ہوا جس کے نتیجے میں وطنِ عزیز کا ایک بازو جبراً کاٹ دیا گیا۔ کہا جاتا ہے کہ تاریخ عبرت کا درس دیتی ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ کوئی اس سے سبق حاصل نہیں کرتا۔ چند روز آہ و بکا کی آوازیں تو ضرور بلند ہوتی ہیں لیکن اس کے بعد زندگی کے معمولات بحال ہو جاتے ہیںاور اسی پرانی ڈگر پر سفرِ حیات جاری رہتا ہے۔ اگر ہم دیانتداری سے اپنے گریبان میں جھانکیں اور دیکھیں کے 70سالوں میں ہم نے اپنے وطن اور عوام کے لئے کیا کیا ، اس میں کیا کچھ ہوتا رہا ہے، کیسے کیسے گل کھلائے گئے تو کسی کو بھی اس قومی جرم سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ یہ درست ہے کہ حکمرانی کا یہ کھیل اونچے ایوانوں اور عالی شان ڈرائنگ روموں میں کھیلا جاتا رہا ہے اس میں عوام یا اس کے کسی بھی طبقے کو شریک نہیں کیا گیا۔ ایسے کئی لیڈر ضرور افقِ سیاست پر ابھرے جنہیں عوامی رہنما ہونے پر بڑا فخر تھا اور وہ عوام کے لئے بڑے دعوے بھی کرتے رہے لیکن جب انہیں اقتدار ملا تو وہ بھی اونچے ایوانوں کی طلسماتی غلام گردشوں میں گم ہو کر رہ گئے۔
یہ تاریخ کا جبر ہے کہ وہ ملک جو جمہوریت کے نام پر ووٹ کے ذریعے قائم کیا گیا تھا اس میں طویل مدت غیر جمہوری حکومتیں قائم رہیں۔ یہ سیاست دان ہی تھے جو فوجی حکمرانوں کی نہ صرف بیساکھی بنے بلکہ ان کی حکومتوں میں برابر کے شریک رہے۔ اگر ہم اس حوالے سے اپنی عدالتی تاریخ کا مشاہدہ کریں تو پاکستان کی عدالتی تاریخ بھی سیاسی تاریخ کی طرح اتار چڑھاؤ سے آراستہ ہے۔ عدالتوں نے سیاسی نوعیت کے مقدمات میں ہر دو طرح سے تاریخ ساز فیصلے کئے خواہ وہ فیصلے حکومتوں کے حق میں تھے یا ان کے خلاف ان فیصلوں کے دور رس اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے کہ ان فیصلوں پر سیاسی جماعتوں کا جداگانہ ردِ عمل رہا ہے جیسا کہ 1993ء میں نواز شریف حکومت کی بحالی کے فیصلے پر بے نظیر کا تبصرہ تھا کہ یہ چمک کی کرامت ہے۔ عدالتی تاریخ کا جائزہ لیں تو اس ملک کے حکمرانوں اور خود عدلیہ کے نمائندوں کے لئے بہت پیغامات اور نصیحتیں پنہاں نظر آتی ہیں۔ حکمرانوں نے جن جج صاحبان کو اپنا ہم خیال تصور کرتے ہوئے نامزد کیا انہیں ترقیاں دیں، وقت آنے پر ان کے فیصلے ان ہی حکمرانوں کے خلاف بھی گئے۔ حکمرانوں نے اپنے حق میں فیصلے حاصل کرنے کی غرض سے جسٹس صاحبان کو تیکنیکی بنیاد پر بینچوں سے علیحدہ بھی کروایا، جن سے متعلق خدشہ تھا کہ وہ حکومت کے ہم خیال نہیں ہیں۔ پاکستان ہی نہیں دیگر ممالک میں بھی ایسا ہوتا ہے اور حکمرانوں کی کوشش ہوتی ہے عدلیہ میں ایسے لوگ آگے آئیں جو ان کے ہم خیال ہوں، تاہم اگر یہ سوچ ملک وقوم کی ترقی اور خوشحالی میں معاونت کے لئے ہوتی ہے تو اس کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں اور اگر حکمرانوں کے ہر جائز و ناجائز اقدامات کو قانونی جواز دینے کے لئے ایسا کیا جائے تو پھر انتشار اور فساد برپا ہوتا ہے۔
بہرحال اب ایک تاریخی فیصلہ سامنے آیا ہے جس کے یقیناً دوررس نتائج سامنے آئینگے۔ ایک بڑے حکمران خاندان کا حساب ہو رہا ہے تو کوئی دوسرا بھی بچتا نظر نہیں آتا۔

ای پیپر دی نیشن