اسلام آباد ( جاوید صدیق) مسلم لیگ (ن) نے شہبازشریف کو بڑے بھائی نوازشریف کی جگہ وزیراعظم بنانے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں مسلم لیگ (ن) اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کےتعلقات میں بہتری آسکے گی۔ ڈان لیکس کی وجہ سے مسلم لیگ (ن) حکومت اور فوج کے درمیان جو غلط بنی پیدا ہوگئی تھی اس کا بھی ازالہ ہوسکے ۔ شہبازشریف کا ہمیشہ سے موقف رہا ہے کہ فوج کے ساتھ تعلقات کو بگڑنے نہیں دینا چاہیے۔ اکتوبر 1999ءمیں جب جنرل مشرف نے مارشل لاءلگایا اس سے قبل شہبازشریف اور چوہدری نثار علی خان نے اس دور میں وزیراعظم نوازشریف کی حکومت اور فوج میں تعلقات کے بگاڑ کو ختم کرنے کی کوشش کی تھی۔ جنرل پرویز مشرف اور فوج کی کمان نے اس وقت تجویز دی تھی کہ نوازشریف کی جگہ شہبازشریف کو وزیراعظم بنا دیا جائے۔ پانامہ لیکس کے دوران جب مسلم لیگ (ن) کے بعض لیڈروں نے پانامہ کیس کو ایک سازش قرار دے کر اس کے ڈانڈے فوج سے ملانے کی کوشش کی اور بیانات داغنے شروع کئے تو وزیراعظم ہاو¿س میں ایک مشاورتی اجلاس میں وزیراعلیٰ شہبازشریف نے یہ مشورہ دیا تھا کہ فوج اور عدلیہ کے ساتھ محاذ آرائی سے گریز کیا جائے۔ شہباز شریف محاذ آرائی اور تصادم سے گریز کرنے کی پالیسی کو ترجیح دیں گے۔ اس پالیسی سے مسلم لیگ (ن) کے لیے موجودہ مشکلات قدرے کم ہوں گی۔ شہبازشریف اپنی کابینہ میں بعض قلمدان تبدیل کریں گے۔ ان کی کابینہ میں ان کے دیرینہ دوست اور ہم راز چوہدری نثار علی کو بہت اہمیت حاصل ہوگی۔