لندن(این این آئی)برطانیہ کی ہائی کورٹ نے مستقلاً بیمار بچے چارلی گیرڈکو ہسپتال سے خارج کرنے کی اجازت دے دی ہے تاکہ وہ سکون سے مر سکے۔غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق عدالت کے اس فیصلے سے بچوں کے حقوق میں ریاست کے کردار اور صحت کی دیکھ بھال پر جاری گرما گرم بحث مباحثہ اپنے اختتام کو پہنچ گیا ۔ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ اس وقت کیا جب چارلی کے والدین اور لندن کے گریٹ آرمنڈ سٹریٹ ہاسپٹل کے درمیان گیارہ ماہ کے بچے کی زندگی کے خاتمے پر کوئی تصفیہ نہیں ہو ا۔ بچہ ہسپتال میں زیر علاج تھا۔عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ یہ بچے کے اپنے مفاد میں نہیں ہے کہ اس کے لئے مصنوعی تنفس جاری رکھی جائے ۔ اس لئے ان آلات کا ہٹایا جانا قانونی اور بچے کے بہترین مفاد میں ہے۔چارلی ایک جینیاتی خرابی کی بیماری کے ساتھ پیدا ہوا تھا۔ وہ دیکھ نہیں سکتا، سن نہیں سکتا، وہ چیخ نہیں سکتا، کوئی چیز نگل نہیں سکتا حرکت نہیں کر سکتا، حتیٰ کہ خود سانس بھی نہیں لے سکتا۔ اسے وقفے وقفے سے مرگی کے دورے بھی پڑتے ہیں۔چار اگست کو وہ ایک سال کا ہو جائے گا۔اس سال کے شروع میں چارلی کا علاج کرنے والے ہسپتال نے عدالت سے یہ کہتے ہوئے لائف سپورٹ کے آلات ہٹانے کی اجازت مانگی تھی کہ بچے کو زندہ رکھنے سے اس کی تکالیف میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ بچے کے والدین کرس گیرڈ اور کونی یاٹیز نے ہسپتال کے موقف پر اعتراض کرتے ہوئے چارلی کو تجرباتی علاج کے لئے امریکہ لے جانے کی اجازت طلب کی تھی۔لیکن برطانیہ کی عدالتوں اور انسانی حقوق کی یورپی عدالت نے ہسپتال کے موقف کی حمایت کی۔انسانی حقوق کی عدالت نے کہا کہ ایک ایسے تجرباتی علاج کا کوئی فائدہ نہیں ہے جس میں کامیابی کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اور اس طرح کا علاج بچے کی تکلیف میں مزید اضافے کا سبب بنے گا۔اس ہفتے کے شروع میں چارلی کے والدین گیرڈ اور یاٹس نے یہ تسلیم کرتے ہوئے قانونی جنگ سے علیحدگی اختیار کر لی کہ بچے کی بیماری لا علاج ہے۔
برطانوی بچہ