اسلام آباد (این این آئی+نوائے وقت رپورٹ) جمعیت علما اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ پانامہ کا معاملہ کرپشن کا نہیں، سیاسی بحران پیدا کرنے کا ہے جس بنیاد پر وزیراعظم کو نااہل قرار دیا گیا اس پر ماہرین آئین حیران ہیں، کتنی سبکی ہے کہ ہماری عدالت کا فیصلہ کسی مثال کے طور پر پیش نہ کیا جاسکے۔ ملک میں اگر کچھ ہوجاتا ہے تو کون ذمہ دار ہوگا۔ انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے کوئی کرپشن ہوئی نہ غبن وزیراعظم کو گھر بھیج دیا گیا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جس بنیاد پر کیس داخل کیا گیا تھا اس پر کہا گیا کہ مزید تحقیق کی جائیگی اور چونکہ تنخواہ وصول نہیں کی گئی اسلئے نااہل قرار دیا گیا جبکہ کتنی سبکی ہے کہ ہماری عدالت کا فیصلہ کسی مثال کے طور پر پیش نہ کیاجاسکے۔سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہاکہ مخالفین مسلسل وزیراعظم کی نااہلی کیلئے تحریک چلارہے تھے اور اب سمجھ رہے ہیں انہوں نے کیس جیت لیا لیکن معاملہ ملک میں سیاسی بحران پیدا کرنے کا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلے بھی کہا تھا کہ چور پکڑا جاتا ہے پتہ ہوتا ہے کہ اس نے کہاں چوری کی لیکن میں نہیں سمجھتا کہ تاریخ اس فیصلے کو انصاف کے معیار پر پورا اترتا سمجھے گی، اب کیا پاناما کی آف شور کمپنیوں کا پیسہ واپس آجائیگا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ فیصلے کے وقت عدالت کو سوچنا چاہیے تھا کہ اقتدار منتقلی کے وقت خلا کا کیا ہوگا، ملک میں اگر کچھ ہوجاتا ہے تو کون ذمہ دار ہوگا، ایسے بحران ملک کیلئے مفید نہیں اور جذباتی قسم کی اچھل کود کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ سربراہ جے یو آئی (ف) نے کہاکہ پاکستان کی ترقی کا سفر بھارت کی نظروں میں کھٹک رہا ہے اور یہ سارا معاملہ کرپشن کا نہیں بلکہ سیاسی بحران پیدا کرنے کا تھا۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ ملک میں سیاسی بحران پیدا کر کے پاکستان کو عدم استحکام کی طرف لے جایا جا رہا ہے۔ سارا کچھ عدم استحکام اور پاکستان کی سلامتی کو مخدوش کرنے کی شروعات ہوسکتی ہے۔ انہوںنے سوال کیا کہ کیا اس فیصلے کے بعد پاناما کمپنیوں اور فلیٹس کا پیسہ پاکستان آجائیگا؟ اگر ایسا نہ ہوا تو اس کا مطلب ہے کہ اس کا مقصد صرف ایک وزیراعظم کو ہٹانا تھا؟َ انہوں نے کہا کرپشن اور کمیشن پر کوئی فیصلہ نہیں آیا۔ نیب پر مدعی جماعت کو بھی اعتماد نہیں تھا لیکن آج اسی میں کیس ڈالے جا رہے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ میاں محمد نواز شریف کی نااہلی کے بعد اس وقت ملک میں کوئی سربراہ نہیں، اس کا کون ذمہ دار ہے؟ سپریم کورٹ جب وزیر اعظم کو نااہل قرار دے رہی تھی تو اسے خلا کا بھی سوچنا چاہیے تھا۔ہم آج بھی مسلم لیگ (ن) کے اتحادی ہیں نوازشریف نے فیصلہ تسلیم کر کے بحران پیدا ہونے سے روکدیا۔ فضل الرحمن کا کہنا تھا کہ جو پیسہ نوازشریف نے لیا نہیں اس پر انہیں نااہل کردیا گیا۔ انہیں بیٹے کی کمپنی سے تنخواہ نہ لینے پر نااہلی کی سزا دی گئی، انصاف کے تقاضے پورے نہیں کئے گئے۔ علاوہ ازیں سینئر سیاستدان مخدوم جاوید ہاشمی نے پاناما کیس میں وزیر اعظم نواز شریف کی نااہلی پر بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدلیہ کے فیصلے پر تبصرہ کرنا ہمارا حق ہے۔ میں نواز شریف کا نہیں بلکہ تمام سیاستدانوں کا مقدمہ لڑ رہا ہوں، مسلم لیگ (ن) صرف نواز شریف کو بچانے کیلئے نہ لڑے بلکہ اداروں کو بچانے کی جنگ لڑنی چاہیے۔ انہوںنے کہاکہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے دوررس اثرات مرتب ہونگے۔ فیصلے کے عدلیہ، مجلسی زندگی، معیشت اور بین الاقوامی معاملات پر بھی اثرات پڑیں گے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ نظیر کے طور پر پیش نہیں کیا جائے گا۔ آئندہ سالوں میں جج اس فیصلے کو ناک سے لگا کر دور پھینکیں گے۔ جاوید ہاشمی نے کہاکہ ملکی معیشت اور سیاسی تسلسل بھی فیصلے کے اثرات سے نہیں بچ سکیں گے۔ انہوںنے کہاکہ آنے والے 8 سے 10 سال میں ججز پانامہ فیصلے کو ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں گے۔ انہوں نے کہا کہ دھرنے میں عمران خان نے کہا تھا کہ ہم اس مرتبہ نواز شریف کو سپریم کورٹ کے ہٹائیں گے وہ سپریم کورٹ سے نااہل ہونگے۔