یہ خوش خبری تحریک انصاف نے قوم کو نصف شب گزرنے سے پہلے ہی دے دی ،، کیونکہ غیر سرکاری غیر حتمی نتائج کے مطابق ،پاکستان تحریک انصاف اتنی نشستیں حاصل کرتی نظر آئی کہ وہ با آسانی مخلوط حکومت بناسکتی ہے۔اب عمران خان پانچ سال کے لیئے ملک کے وزیر اعظم ہونگے ۔سیاسی ماہرین کا کہنا ہے کہ کمزور سے کمزور جمہوریت بھی کسی آمریت سے بہتر ہے۔جبکہ عمران خان تو ایک خاصی مضبوط حکومت کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں۔لیکن جمہوریت میں اقتدار میں آنے کا مطلب ایک نئی آزمائش سے دوچار ہونا ہوتا ہے۔ خاص کر ہمارے جیسے ملک میں جہاں پر مسائل زیادہ جبکہ وسائل اس کے مقابلے میں بہت کم ہیں۔عمران خان کو تقریبا ایک سال تک اپنی انتخابی مہم چلانے کا موقع ملا جو 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دینے کے بعد شروع ہوئی۔ اس کے بعد سے شاید ہی انتخابات تک کوئی ایسا وقت آیا ہو ، جب عمران خان نے پیچھے مڑ کر دیکھا ہو ،وہ اپنے حریفوں کے ساتھ ایک بڑی کامیاب جار حانہ انتخابی مہم چلانے میں کامیاب رہے اور آخر کار ا ب وزیر اعظم کے عہدے تک جاپہنچے ہیں۔ انتخابی مہم کے دوران جہاں انہوں نے اپنے مخالفین پر بے بہا الزامات لگائے وہیں پر قوم سے کچھ وعدے بھی کیئے۔ان سب کا محور یہ تھا کہ وہ تبدیلی لائیں گے اور ایک نیا پاکستان بنائیں گے۔ یہ نیا پاکستان کیسے بنے گا اس کا نقشہ کچھ زیادہ واضح نہیں ہے۔لیکن یہ طے ہے کہ ان کے اقتدار میں آنے کا مطلب تبدیلی کا آغاز ہے۔ پاکستان کے مسائل کیا ہیں اور عمران خان اسے کیسے حل کرنا چاہتے ہیں اسے انہوں نے 26 جولائی کی اپنی وکٹری اسپیچ میں بڑی وضاحت سے پیش کیا۔ انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ پاکستان کو دو بڑے چیلینجز کا سامنا ہے جواقتصادی اور خارجہ امور سے متعلق ہیں۔عمران خان نے کہا کہ اقتصادی کمزوری کو دور کرنے کے لیئے وہ باہر سے سرمایہ لائیں گے اور یہ سرمایہ بیرون ملک مقیم پاکستانی زرمبادلہ کی صورت میں فراہم کریں گے۔ایک اندازے کے مطابق 90 لاکھ تارکین وطن خلیج کے ممالک ، برطانیہ ، یورپ اور امریکا میں رہتے ہیں۔ 45 لاکھ خلیج میں ہیں ، 12 لاکھ برطانیہ میں اور 17 لاکھ امریکا میں جبکہ باقی دنیا کے دوسرے ممالک میں مقیم ہیں۔ یہ پاکستانی تارکین گزشتہ 50 سالوں سے اپنے ملک میں زرمبادلہ بھیج رہے ہیں۔عمران خان کی تقریر سے یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ ان تارکین کو اس بات پر رضامند کرلیں گے کہ وہ پاکستان کے اقتصادی مسائل کو حل کرنے کے لیئے بڑے پیمانے پر زرمبادلہ کی ترسیل کریں گے اور ساتھ ہی بڑے بڑے منصوبوں میں دل کھول کر سرمایہ کاری کریں گے۔ اس سلسلے میں انہوں نے کہا کہ ملک کے مالیاتی نظام میں وہ تبدیلیاں لائیں گے جس کی بنیاد پر اس سرمایہ کاری کی حوصلہ افزا ئی ہوگی۔لیکن ماہرین اس جانب اشارہ کرتے ہیں کہ پاکستان کو فوری طور پر اپنی معیشت کو سنبھا لا دینے کے لیئے کئی ارب ڈالرز کی ضرورت ہوگی کیا اتنی خطیر رقم تارکین وطن فوری طور پر اپنے آبائی وطن کے لیئے فراہم کرسکیں گے؟ تاکہ معیشت کو سہارا مل سکے ؟۔ کیونکہ اب تک جو بات سامنے آرہی ہے وہ یہ تھی کہ آئی ایم ایف جانا پڑے گا یا کوئی دوست ملک قرض یا امداد کے طور پر یہ خطیر رقم فراہم کردے۔ انہوں نے چین کا خاص طور پر ذکر کیا ،جو ان کے مطابق گزشتہ 30 سالوں میں 70 کروڑ افراد کو غربت سے نکال کر خوشحالی دینے میں کامیاب ہوا۔ انہوں نے کہا کہ وہ پاکستان میں اسی ماڈل کو اپنانے کی کوشش کریں گے۔دوسری بات انہوں نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کے حوالے سے کہی جس کا لوگوں کو بہت انتظار تھا۔ عمران خان نے کہا کہ پاکستان دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ اچھے تعلقات رکھنا چاہتا ہے باالخصوص پڑوسی ممالک سے۔ عمران خان بھارت سے تجارت کرنا چاہتے ہیں جبکہ کشمیر جیسے دیرینہ مسلئے کو حل کرنے کے لیئے ان کا کہنا ہے کہ الزامات کے بجائے میز پر بیٹھ کر بات چیت کی جائے۔انہوں نے بھارت سے کہا کہ" آپ ایک قدم اٹھائیں ہم دو قدم اٹھائیں گے۔آپ قدم تو لیں"۔ اسے ایک اچھی پیش رفت ہی کہا جاسکتا ہے کیونکہ جنوبی ایشیا کے ایک ارب پچاس کروڑ افراد کے مسائل کا حل امن سے ہی ممکن ہے۔ عمران خان نے افغانستان کے لیئے نہایت نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ" افغانستان کے لوگوں کو امن کی ضرورت ہے اور"ہم تو چاہیں گے کہ پاکستان اور افغانستان کا اوپن بارڈر ہو جیسے یورپی ممالک میں ہوتا ہے "۔ یاد رہے کہ پاکستان نے پاک افغان سرحد پر ایک طویل باڑ ھ لگائی ہے تاکہ دہشت گردوں کی در اندازی کو روکا جاسکے۔اس کے علاوہ انہوں نے دیگر مسلم ممالک سے بہتر تعلقات کی بات بھی کی۔ ان انتخابات میں ایک اہم چیز جو عوامی سطح پر سامنے آئی وہ معاشرے کی تقسیم تھی۔اس حوالے سے نئے متوقع وزیر اعظم نے اس عزم کا اظہار کیا کہ ملک متحد ہو اور یہ کہ ان کی حکومت میں سیاسی انتقام نہیں لیا جائے گا۔ یہ ایک بڑا خوش کن پیغام ہے لیکن اسے کہنا جتنا آسان ہے اس پر عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ کیونکہ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ میں یہ دیکھنے میں آیا کہ ہر آنے والی حکومت اپنے سیاسی حریفوں کو انتقام کا نشانہ بناتی ہے اور اس کے لیئے ایسے حربے استعمال کرتی ہے جس پر وہ بعد میں خود بھی شرمندہ ہوتی ہے۔خاص کر ایسی کاروائیوں میں حکومتی مشینری اور اداروں کا استعمال ملک میں بہت سارے تکلیف دہ مسائل کو جنم دے چکا ہے جن پر قابو پانا ایک بہت بڑی آزمائش بنی ہوئی ہے۔ عمران خان کو سپریم کورٹ نے صادق اور امین قرار دیا ہے جس پر وہ خود بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ قوم نے انہیں منتخب کر کے ان پر بہت بڑی ذمہ داری عائد کردی ہے۔جو خواب خان صاحب نے دیکھا قوم نے اس کی تعبیر کیلیئے انہیں اپنے ووٹ سے وہ حق دے دیا تاکہ وہ ایک ایسی فلاحی ریاست قائم کریں۔جہاں پر انصاف ،،،تعلیم ،،،صحت ،،،روزگار ،،،اتنے ہی بہترین ہوں جیسا کہ وہ خواب دیکھا کرتے تھے۔یقینی طور پر یہ سب ایک دن میں نہیں ہوگا تاہم اس کے خدوخال ان کی حکومت کے پہلے 100 دنوں میں ضرور دکھائی دینا شروع ہوجائیں گے۔