اے پی سی کا اسمبلیوں کے بائیکاٹ اور رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ۔ پی پی کی عدم شمولیت اور (ن) لیگ کا مشاورت کا اعلان
اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمان کی طلب کی گئی آل پارٹیز کانفرنس نے عام انتخابات کے نتائج کو مسترد کرتے ہوئے اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے پر اتفاق کیا ہے تاہم مسلم لیگ (ن) اس بارے میں پارٹی مشاورت کے بعد فیصلہ کریگی۔ اے پی سی کے اعلامیہ کے مطابق انتخابات کے نتائج کیخلاف اور دوبارہ الیکشن کیلئے ملک گیر تحریک چلائی جائیگی۔ اس سلسلہ میں مولانا فضل الرحمان نے اے پی سی کے بعد مسلم لیگ (ن) کے صدر میاں شہبازشریف‘ امیر جماعت اسلامی سراج الحق‘ آفتاب شیرپاﺅ‘ اسفندیار ولی‘ محمود خان اچکزئی‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ مصطفی کمال‘ راجہ ظفرالحق‘ لیاقت بلوچ‘ حاجی غلام احمد بلور اور اے پی سی میں شریک دیگر جماعتوں کے قائدین کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم دوبارہ انتخابات کا مطالبہ کررہے ہیں جس کیلئے ہم تحریک چلائیں گے اور احتجاجی مظاہرے کرینگے جس کا طریقہ کار طے کرنے کیلئے ایک کمیٹی بنائی جائیگی۔ انکے بقول اے پی سی کی تمام جماعتوں نے انتخابات کو مسترد کیا ہے۔ ہم جمہوریت کی بقاءچاہتے ہیں‘ جمہوریت کیلئے ہماری قربانیاں ہیں۔ ہم اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں جمہوریت کو یرغمال نہیں ہونے دینگے اور جمہوریت کی آزادی کی جنگ لڑیں گے۔ انہوں نے کہا کہ جو قوتیں سمجھتی ہیں کہ یہ سب کچھ انکے ہاتھ میں ہے‘ ہم ان کو بتا دینا چاہتے ہیں کہ انکے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں ہے۔ انہوں نے متعدد انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ایوان مقدس ہے‘ چور لٹیرے ڈاکے ڈال کر جانیوالے لوگوں کو ایوان کے اندر نہیں جانے دیا جائیگا اور ہم ایوان کی طرف جانیوالے راستے بند کردینگے۔ انہوں نے بتایا کہ جو جماعتیں اے پی سی کے اجلاس میں شریک نہیں ہو سکیں‘ ان سے بھی رابطے کئے جائینگے اور ہم سب فیصلے متفقہ طور پر کرینگے۔ ہم ازسرنو جمہوریت کی بحالی کی تحریک چلائیں گے۔ دوسری جانب مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہبازشریف نے کہا کہ اسمبلیوں کا حلف نہ اٹھانے کے بارے میں مسلم لیگ (ن) کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی سے مشاورت کے بعد حتمی فیصلہ کیا جائیگا۔ انکے بقول عام انتخابات میں بدترین بے ضابطگیاں اور دھاندلی کی گئی‘ ہم انتخابی دھاندلیوں کیخلاف تحریک چلانے کے فیصلہ پر متفق ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ 25 جولائی کو عام انتخابات کیلئے ملک بھر میں پولنگ مجموعی طور پر پرامن اور آزادانہ ماحول میں منعقد ہوا اور الیکشن کمیشن کے ماتحت انتخابی عملہ نے پولنگ کے فرائض پاک فوج اور دوسرے سکیورٹی اداروں کے اہلکاروں کی کڑی نگرانی میں سرانجام دیئے اس لئے انتخابات میں دھاندلی کے ماضی جیسے امکانات نہ ہونے کے برابر رہے تاہم پولنگ کا مرحلہ طے ہونے کے بعد ووٹوں کی گنتی کا سلسلہ شروع ہوا تو اسکے بارے میں پولنگ ایجنٹوں کی فراہم کردہ معلومات کی بنیاد پر مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی سمیت متعدد جماعتوں کی قیادتوں کی جانب سے تحفظات کا اظہار سامنے آنے لگا۔ اس میں بطور خاص اعتراض اٹھایا گیا کہ پولنگ ایجنٹوں کو نتائج کی تفصیلات پر مبنی فارم 45 فراہم نہیں کیا گیا جبکہ گنتی کے وقت پولنگ ایجنٹوں کو کمرے سے باہر نکالنے کی شکایات بھی موصول ہوئیں جس پر مسلم لیگ (ن) کے سربراہ میاں شہبازشریف اور پیپلزپارٹی کے قائدین رضاربانی‘ سید خورشید شاہ‘ شیری رحمان اور اسی طرح متحدہ مجلس عمل کے قائدین مولانا فضل الرحمان اور سراج الحق نے اپنی الگ الگ ہنگامی پریس کانفرنسوں کے ذریعے الیکشن کمیشن پر انتخابی بے ضابطگیوں کے الزامات عائد کئے۔ اگرچہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خان اور سیکرٹری الیکشن کمیشن نے فارم 45 کی عدم فراہمی اور انتخابی نتائج کے اعلان میں تاخیر ہونے کے معاملات کی صراحت کے ساتھ وضاحت کردی ہے۔ اسکے باوجود انتخابات میں حصہ لینے والی جماعتوں اور امیدواروں کے پاس کسی حلقے میں دھاندلیوں کے ٹھوس ثبوت موجود ہیں تو انکے پاس متعلقہ حلقوں کا انتخاب مجاز عدالتی فورم پر چیلنج کرنے کا آپشن موجود ہے جس کیلئے متعدد سیاسی قائدین اور امیدواروں کی جانب سے تیاری بھی کی جارہی ہے اور بعض حلقوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کے روبرو چیلنج بھی کئے جاچکے ہیں۔ کسی انتخاب کو چیلنج کرنے کا بلاشبہ یہی طریقہ کار جائز‘ قانونی اور مناسب ہے اور یہ آپشن ضرور اختیار کیا جانا چاہیے۔ تاہم بعض حلقوں میں مبینہ دھاندلیوں کو جواز بنا کر پورے انتخابی عمل کو چیلنج کرنا اور اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے کا فیصلہ کرکے دوسرے منتخب ارکان کو پارلیمنٹ کے اندر جانے سے روکنے کیلئے تشدد اور طاقت کے استعمال والے اقدامات اٹھانے کا عندیہ دینا فی الواقع پورے جمہوری عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کے مترادف ہے۔ اے پی سی میں شریک جن جماعتوں کے قائدین کی جانب سے رکنیت کا حلف نہ اٹھانے اور پارلیمنٹ کا گھیراﺅ کرنے کے فیصلے پر اتفاق کیا گیا وہ سب اپنی اپنی نشستوں کا انتخاب ہارچکے ہیں جن میں مولانا فضل الرحمان‘ سراج الحق‘ آفتاب شیرپاﺅ‘ اسفندیار ولی‘ محمود خان اچکزئی‘ ڈاکٹر فاروق ستار اور مصطفی کمال بھی شامل ہیں اس لئے ان کا اسمبلیوں میں نہ بیٹھنے اور رکنیت کا حلف نہ اٹھانے اور دوسرے ارکان کو منتخب ایوان میں داخل نہ ہونے دینے کا فیصلہ انکے ذاتی غصے کا اظہار نظر آتا ہے اور شاید وہ ایسے فیصلے کے ذریعے اپنی ذاتی شکست پر پوری پارلیمنٹ کو سزا دینا چاہتے ہیں۔
یہ طرفہ تماشا ہے کہ ان میں سے اکثر قائدین گزشتہ اسمبلی میں عمران خان کو پی ٹی آئی کے ارکان کے استعفے دلوانے اور خود بھی ہاﺅس میں نہ آنے کی بنیاد پر ہی تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں جبکہ اب وہ خود بھی یہی راستہ اختیار کرنے کی ٹھانے بیٹھے ہیں اور ان جماعتوں کو بھی اپنے اس فیصلہ کا حصہ بنانے کی خواہش رکھتے ہیں جو انتخابی عمل پر تحفظات رکھنے کے باوجود پارلیمنٹ سے باہر بیٹھنے کے حق میں نہیں اور پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہی مبینہ دھاندلیوں کیخلاف آواز اٹھانا چاہتے ہیں۔
مولانا فضل الرحمان کی جانب سے پیپلزپارٹی اور ایم کیو ایم پاکستان کو بھی آل پارٹیز کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا مگر پیپلزپارٹی نے مولانا فضل الرحمان کی ممکنہ مزاحمت والی سیاست کو بھانپ کر ہی اے پی سی میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا۔ اس سلسلہ میں پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری انتخابات کی شفافیت پر سوالات اٹھانے کے باوجود گزشتہ روز اس امر کا اظہار کرچکے ہیں کہ سیاسی جماعتوں کو پارلیمانی فورم ہرگز نہیں چھوڑنا چاہیے جبکہ میاں شہبازشریف نے آل پارٹیز کانفرنس میں شریک ہونے کے باوجود اسمبلیوں کی رکنیت کا حلف نہ اٹھانے سے متعلق اے پی سی کے فیصلہ سے اتفاق نہیں کیا اور مولانا کو پارٹی سے مشاورت والی ٹرک کی بتی کے پیچھے لگا دیا۔ مسلم لیگ (ن) مبینہ انتخابی دھاندلیوں کیخلاف کسی انتخابی تحریک میں ممکنہ طور پر ضرور حصہ لے سکتی ہے اور پارلیمنٹ ہاﺅس کے باہر احتجاج میں بھی شریک ہو سکتی ہے تاہم وہ منتخب فورموں سے باہر نکلنے کی سیاست کی ہرگز متحمل نہیں ہو سکتی۔
اس وقت جبکہ قومی اور صوبائی سطح پر حکومت سازی کیلئے پی ٹی آئی‘ مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی جانب سے مشاورت اور جوڑتوڑ کا سلسلہ جاری ہے‘ اس میں بہتر حکمت عملی کے تحت پانسہ پلٹا بھی جا سکتا ہے۔ مولانا فضل الرحمان اگر ماضی جیسی بحالی ¿جمہوریت کی تحریک چلانے کا عندیہ دے رہے ہیں تو یہ تحریک وہ کس کیخلاف چلانا چاہتے ہیں جبکہ ماضی میں ایسی تحریکیں جمہوریت کی بساط لپیٹنے والے جرنیلی آمروں کیخلاف چلتی رہی ہیں۔ آج تو پارلیمنٹ موجود ہے اور جمہوریت کی گاڑی گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصہ سے ٹریک پر چڑھی ہوئی ہے جسے اب سبک خرام کرنے کے اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے نہ کہ اسے دوبارہ ٹریک سے اتارنے کے طالع آزماﺅں کو مواقع فراہم کئے جائیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج اگر پی ٹی آئی کی مخالف تمام سیاسی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جائیں اور بہتر حکمت عملی کے تحت آزاد ارکان کو بھی اپنے ساتھ ملالیں تو وہ وفاق میں بھی سادہ اکثریت کے ساتھ حکومت تشکیل دینے کی پوزیشن میں آسکتی ہیں جبکہ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان میں بھی اسی ممکنہ اتحاد کی حکومتیں تشکیل پا سکتی ہیں‘ بصورت دیگر وہ ایک مضبوط اپوزیشن کی صورت میں پی ٹی آئی کی حکومت کو زچ کئے رکھنے کی پالیسی طے کر سکتی ہیں۔ اس تناظر میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں پی ٹی آئی کی مخالف جماعتوں کا بھی اہم کردار موجود ہے تاہم کوشش یہی کی جانی چاہیے کہ منتخب فورموں پر محض مخالفت برائے مخالفت کی سیاست نہ کی جائے بلکہ سسٹم کے تسلسل و استحکام کیلئے مثبت اور مو¿ثر کردار ادا کیا جائے۔ مولانا فضل الرحمان اور انکے دوسرے ساتھی سیاسی قائدین اسمبلی میں نہ بیٹھنے اور منتخب ایوانوں کا گھیراﺅ کرنے والی اکھاڑ پچھاڑ کی جس سیاست کا عندیہ دے رہے ہیں اور اسکے تحت وہ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے ازسرنو انتخابات کا بھی تقاضا کررہے ہیں‘ وہ سسٹم کے تسلسل و استحکام میں تو ہرگز ممدومعاون نہیں ہوگی البتہ اس سے سسٹم کی بساط الٹانے کی سوچ رکھنے والوں کو فائدہ اٹھانے کا ضرور موقع ملے گا۔ ان سیاسی قائدین کو ماضی کی ایسی سیاست کا انجام بہرصورت پیش نظر رکھنا چاہیے۔ 1977ءمیں دوبارہ انتخابات کیلئے پی این اے کی تحریک ملک میں جرنیلی آمریت مسلط کرانے پر ہی منتج ہوئی تھی جبکہ 1985ءکے غیرجماعتی انتخابات کے بائیکاٹ کیلئے ایم آر ڈی کا فیصلہ سیاسی قوتوں کے ناقابل تلافی نقصان پر منتج ہوا۔ اس فیصلے کے باعث ہی جرنیلی آمریت کی چھتری کے نیچے پرورش پانے والے بونے قد کے سیاست دانوں کو اپنا سیاسی قدکاٹھ بڑھانے کا موقع ملا تھا جس پر پیپلزپارٹی کی چیئرپرسن محترمہ بے نظیر بھٹو اپنی شہادت تک تاسف کا اظہار کرتی رہیں۔ کیا مولانا فضل الرحمان اب بھی سیاسی جمہوری قوتوں کو ایسا ہی نقصان پہنچانے کے درپے ہیں۔ انہیں اپنی ذاتی شکست کا انتقام پوری پارلیمنٹ اور جمہوری نظام سے تو نہیں لینا چاہیے جبکہ جو قدآور سیاسی قائدین 25 جولائی کو اپنی نشستوں کا انتخاب ہارچکے ہیں‘ انکے پاس قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی خالی نشستوں کے ضمنی انتخابات میں اپنی قسمت دوبارہ آزمانے کے مواقع موجود ہیں۔ وہ اس کیلئے اپنی پارٹیوں کو منظم کریں اور رائے عامہ ہموار کریں اور دوبارہ انتخابات میں جانے کا شوق پورا کرلیں مگر وہ سسٹم کی بنیادیں ہلانے سے بہرصورت گریز کریں۔ ایسی سیاست ملک و قوم کی خدمت کے کسی زمرے میں نہیں آئیگی۔