عافیہ صدیقی اور خان کا عزم

برطانوی صحافی یوون ریڈلی کا کہنا تھاکہ افغانستان میں امریکی حراستی مرکز میں قیدی نمبر 650 ایک مسلمان خاتون ہیں جس کے ساتھ وہاں پر تعینات سکیورٹی اہلکار ناروا سلوک کر رہے ہیں۔ یاد رہے کہ یوون ریڈلی نے پاکستانی خاتون ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے بارے میں پہلی بار یہ انکشاف کیا تھا اور پھر 28 اکتوبر 2008ء کو اس برطانوی صحافی خاتون نے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان اور لاپتہ افراد کے لئے متحرک خاتون آمنہ جنجوعہ کے ہمراہ ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ پینٹاگون نے اْنہیں بتایا ہے کہ اس خاتون کو دو سال تک بگرام حراستی مرکز میں کسی مقدمے کے بغیر رکھا گیا تھا۔ وزیراعظم عمران خان کے حالیہ دورے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے شکیل آفریدی کے حوالے سے ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہا: ’’امریکہ دنیا بھر میں ’اپنے یرغمال‘ لوگوں کو چھڑانے کی بھرپور کوشش کرے گا۔‘‘ امریکی صدر اپنے ایجنٹوں کو دنیا بھر سے چھڑانے کے عزم کا اظہار کرتا ہے۔ یہی وہ موقع تھا جب امریکہ کی جیل میں پاکستانی قیدی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو چھڑانے کی بات بھی کی جا سکتی تھی۔ کچھ باتیں موقع کی مناسبت سے اچھی لگتی ہیں۔ وائٹ ہائوس میں پریس کانفرنس کے دوران شکیل آفریدی کا سوال ایک بھارتی صحافی نے اٹھایا تھا۔ شکیل آفریدی کے سوال نے ہمیں عافیہ صدیقی کی رہائی کے لئے بولنے پر مجبور کر دیا۔ وزیراعظم عمران خان نے جواب میں بس اتنا کہا کہ ’’ہم ڈسکس کریں گے‘‘۔ یاد رہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 2003ء میں مبینہ طور پر اس وقت کے حکمران پرویز مشرف کی اجازت پر کراچی سے تین چھوٹے بچوں سمیت اغوا کر کے بگرام ائیربیس افغانستان لے جایا گیا تھا۔ یہاں ان پر پانچ سال تک امریکی عقوبت خانے میں انسانیت سوز مظالم توڑے گئے۔ برطانوی نومسلم صحافی یوون نے یہاں موجود قیدی نمبر 650 کے ڈاکٹر عافیہ ہونے کا انکشاف عالمی میڈیا کے سامنے کیا۔ اس کے بعد عافیہ کے خلاف ایک مشکوک قسم کا مقدمہ درج کر دیا جاتا ہے اور 2009ء میں انہیں امریکہ منتقل کر دیا جاتا ہے۔ عمران خان نے اس ایشو کو 2018ء میں اپنے انتخابی منشور میں بھی شامل کیا، جس میں قوم سے وعدہ کیا گیا تھا: ’’پاکستان تحریکِ انصاف، برسرِ اقتدار آنے کے بعد ڈاکٹر عافیہ صدیقی اور (بیرونِ ملک قید) دوسرے پاکستانی قیدیوں کو وطن واپس لانے کی پوری کوشش کرے گی۔عمران خان اس کیس کو حساس ایشو کے طور پر منظرِ عام پر لائے اور عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے مسلسل آواز بھی اٹھاتے رہے۔ امریکی قیدیوں پر حملہ کرنے اور مارنے کے الزام میں ڈاکٹر عافیہ پر مقدمہ چلایا گیا۔ رسمی عدالتی کارروائی کے بعد چھیاسی (86) سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ قید کی سزا کے طور پر انہیں تنگ و تاریک کوٹھڑی میں رکھا گیا۔ جسمانی تشدد اور برہنگی کی اذیت، نہ جانے کتنے ہی مظالم کئے گئے۔ عمران خان کا وزیراعظم بننے سے قبل کہنا تھا: ’’ڈاکٹر عافیہ صدیقی کا غیروں کی قید میں رہنا وقت کے حکمرانوں کیلئے انتہائی شرمناک ہے۔ اگر ہم عافیہ کو رہا نہ کروا سکے تو یہ بدترین مایوسی والی بات ہوگی۔‘‘ آج عمران خان کو اللہ نے حاکم بنایا ہے۔ آج وہ چاہتے تو سپر پاور کے سامنے کلمہ حق ادا کر سکتے تھے مگر انہوں نے یہ بات امریکہ کے ایک مقامی میڈیا کے سامنے کہی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ عمران خان جس نے عافیہ صدیقی کے ایشو کا نہ صرف انکشاف کیا بلکہ اسے حساس ایشو کے طور پر اپنے انتخابی منشور کا حصہ بنایا، آج جب پاور ان کے ہاتھ میں ہے کیا قوم کی بیٹی کو امریکہ کی قید سے رہائی دلا سکیں گے؟

طیبہ ضیاءچیمہ ....(نیویارک)

ای پیپر دی نیشن