ہارورڈ سے شکرگڑھ تک پروفیسر کرن عزیز کا سفر 

مہری پور کے چھوٹے سے گاؤں سے ہارورڈ یونیورسٹی تک کا پر شکوہ سفر کچھ یوں تمام ہوا کہ پروفیسر کرن عزیز چودھری نے واپس آکر اپنی دھرتی پر دفن ہوکر اپنے اجداد سے اپنے والہانہ لگاؤ کو زندہ مجسم کردیا 
"میرا مالک پروفیسر کرن ورگیاں دھیاں سب نے دیوے اوتے مرکے وی بابے انورعزیز دا اگا صاف کرگئی اے"نمازجنازہ کی ادائیگی کے بعد شکرگڑھ کے دو بزرگ دیہاتی آپس میں گفتگو کررہے تھے اوریہ کالم نگار دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبا ان کی دیہی دانش سے بھرپور باتیں سن رہاتھا، وہ بزرگ کہہ رہاتھا کہ سنیا کرن بی بی نے ایتھے دفن ہون دی وصیت کیتی سی، بابے دے نال دفن ہونا چاہیدا سی، پر مالک نوکجھ ہورہی منظورسی بابابیٹھا رہ گیا دھی اگلے جہان چلی گئی۔ ‘‘واہ مولا تیرے رنگ نیارے نے کرن بی بی دی وصیت ‘‘چودھری دا ڈیرہ’’ آباد کردتا اے یہ دونوں بزرگ انور عزیز چوہدری کی صاحبزادی ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری کو نماز جنازہ کے بعد خراج تحسین پیش کررہے تھے۔چودھری صاحب کے سیاسی حریف شد و مد سے پراپیگنڈہ کرتے تھے کہ ساری زندگی بار گذاری اینہاں دا شکر گڑھ نال کی ‘سیر سانجھ’ اے جو پروفیسر ڈاکٹر کرن عزیز چودھری نے اپنے لان میں دفن ہو کر ہمیشہ حرف غلط کی طرح مٹا کر رکھ دیا اور اپنی دھرتی سے محبت کی لازوال داستان رقم کی جو صدیوں قرنوں تک پنجاب کی چوپالوں میں دھرائی جایا کرے گی ۔
ڈاکٹر کرن کو پنجابی سے والہانہ لگاؤ تھا وہ ایسے ٹھیٹ لہجے میں بولتی تھیں کہ امرتا پریتم کی یادیں جھلملا نے لگتی تھیں۔دنیا کی چوٹی کی درس گاہ ہارورڈ سے ریٹائرمنٹ کے بعد ڈاکٹر کرن عزیز چوہدری یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے برکلے کیمپس میں پڑھارہی تھیں (جاری)

ای پیپر دی نیشن