پارٹی گروپنگ عمران تک پہنچنے پر ختم ہو جاتی ہے: فواد چودھری

اسلام آباد (خبر نگار خصوصی‘ نوائے وقت رپورٹ) وزیر اطلاعات فواد چودھری نے نجی ٹی وی سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ مشکلات پر قابو پا  کر ہم کامیابیوں کی جانب گامزن ہیں۔ ملک کے معاشی حالات بہتر ہو رہے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس قیادت کا فقدان ہے۔ اپوزیشن کی قیادت سیاسی نابالغ ہے۔ پارٹی میں اندرونی گروپنگ عمران خان تک پہنچنے پر ختم ہو جاتی ہے۔ نذیر چوہان نے مذہبی کارڈ کھیلا یقیناً سزا ہونی چاہئے۔ نذیر چوہان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ہو گی۔ دریں اثناء پاک افغان میڈیا انکلیو کے افتتاحی سیشن سے خطاب کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا مستحکم افغانستان کے ذریعے پورے خطے کو وسطی ایشیا اور یورپ سے ملانا وزیراعظم عمران خان کا ویژن ہے۔ ہم معاشی بہتری کے لئے خطے میں امن اور استحکام چاہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کو اپنے مفاد کا فیصلہ خود کرنا ہوگا۔ سپر پاورز اپنی گیم کھیل کر چلی جاتی ہیں، نتائج ہمیں بھگتنا پڑتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے لوگ ایک دوسرے سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں، ہمارے تعلقات اونچ نیچ کے باوجود مستحکم ہیں۔ چودھری فواد حسین نے کہا کہ افغانستان اور پاکستان کے لوگ مذہبی، ثقافتی اور جغرافیائی طور پر ایک دوسرے سے تاریخی رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں۔ افغانستان کے لوگ ہمارے اپنے اور ایک ہی قبائل کے لوگ ہیں۔ ان کے ساتھ ہماری قربت ہے۔  1988میں جب افغانستان میں بحران ختم ہوا تو یو ایس ایس آر اور امریکا  تو وہاں سے چلے گئے لیکن سارا بوجھ پاکستان اور افغانستان کے لوگوں کو برداشت کرنا پڑا۔ ہم افغانستان کے لوگوں کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر آگے بڑھے۔ پاکستان نے لاکھوں افغان مہاجرین کی میزبانی کی۔ پاکستان کی یونیورسٹیوں  میں چھ ہزار کے قریب افغان  طلبا زیر تعلیم ہیں۔ آج یہ بچے خود بتا رہے ہیں کہ پاکستان نے انہیں مواقع فراہم کئے۔ اس وقت 30 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین پاکستان میں موجود ہیں، ماضی میں ہم نے تقریبا 50 لاکھ سے زیادہ افغان مہاجرین کی میزبانی کی جو افغانستان کی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہے۔ پاکستان کا فرض تھا کہ وہ اس جنگ میں افغان عوام کا ساتھ دے اور ہم نے وہی کیا۔ اگر افغانستان کے حالات خراب ہوتے ہیں تو اس سے پناہ گزینوں کا ایک اور بحران پیدا ہوگا۔ میڈیا کے ذریعے افغانستان اور پاکستان کے لوگ اپنا نکتہ نظر پیش کر سکتے ہیں اور اس کے ذریعے قیام امن کے مقصد کو آگے بڑھایا جا سکتا ہے۔  ہم افغانستان میں امن چاہتے ہیں، اس بارے میں ہمارا نکتہ نظر واضح ہے۔ مستحکم افغانستان کے ذریعے پورے خطے کو وسطی ایشیا اور یورپ سے ملانا وزیراعظم عمران خان کا وژن ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ افغانستان میں استحکام آئے اور اس کے نتیجے میں ہم گوادر سے لے کر ازبکستان تک ریلوے ٹریک بچھا سکیں۔ اس سے وسطی ایشیا کو گوادر اور کراچی کی بندرگاہوں اور ہمیں وسطی ایشیا کی مارکیٹس تک رسائی حاصل ہوگی، یورپی یونین اور سی پیک کو آپس میں منسلک کیا جا سکے گا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان اس خطے کا اقتصادی مرکز بن جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات چاہتے ہیں، ہمارے تعلقات بھارت سے بہتر ہوتے ہیں تو ہم دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان ہوں گے۔ افغانستان میں امن و استحکام سے تجارت کے لئے مواقع پیدا ہوں گے، یہ ایک بہت بڑا وژن ہے جس پر وزیراعظم عمران خان کام کررہے ہیں۔ پاکستان کبھی بھی نہیں چاہے کہ افغانستان میں لڑائی ہو اور بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہوں۔ وزیراعظم عمران خان کا موقف ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام اور امن ہوگا تو غربت کا بھی خاتمہ ہوگا، افغانستان میں کسی گروپ کے پاس یہ صلاحیت موجود نہیں کہ وہ پورے ملک پر حکمرانی کرسکے، اس لئے افغانستان میں وسیع البنیاد اور جامع حکومت کے خواہاں ہیں تاہم اس کے لئے افغان  تنازع کے تمام فریقوں کو خلوص نیت سے کام کرنا ہو گا کیونکہ شرائط پر مذاکرات آگے نہیں بڑھ سکتے۔ امریکا  اور افغان حکومت کے ساتھ طالبان کے مذاکرات میں پاکستان نے اپنا کردار ادا کیا تاہم ہمارا کردار محدود ہے، افغانستان کے مسائل افغانستان کے عوام کو خود حل کرنا ہوں گے۔  افغانستان میں مستحکم حکومت کے قیام اور دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی بہتری کے لئے اپنی تجاویز اور آراء دیں۔ پاکستان سمیت دنیا کے کسی حصے میں بھی سو فیصد اتفاق رائے نہیں ہوتا، ہمارا اپوزیشن کے ساتھ اختلاف ہے لیکن ہم آئین پر متفق ہیں، پوری سیاسی قیادت کو پتہ ہے کہ اس نے آئین کے تحت ہی چلنا ہے، یہ ایک ایسا ماڈل ہے جس کی پیروی افغانستان کر سکتا ہے لیکن اتفاق رائے افغان عوام نے کرنا ہے۔ افغانستان میں استحکام بے شمار مواقع کا باعث بن سکتا ہے اور ہم اسی سمت میں کام کررہے ہیں۔ اقتصادی استحکام امن کے بغیر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے جب امن ہو گا تو اس سے خطے میں غربت کے خاتمہ میں مدد ملے گی۔ دو روزہ میڈیا انکلیو میں ہمیں ڈرامہ، فلم اور موسیقی کے شعبوں میں تعاون پر بات کرنی چاہئے۔

ای پیپر دی نیشن