نوید عالم کو رخصت ہوئے کئی دن گذر چکے ہیں لیکن یوں محسوس ہوتا ہے کہ ابھی موبائل فون کی گھنٹی بجے گی اور نوید کہیں گے حافظ صاحب موٹر وے پر ہوں تھوڑی دیر میں لاہور پہنچ جاؤں گا تیار رہیے گا آپ کو آفس سے لے لوں گا۔ یہ نوید عالم کا معمول تھا، جب بھی ملاقات کو زیادہ وقت گذرتا وہ ایسے ہی کرتے تھے۔ اگر انہیں وقت پر بلانا ہے تو اس کا ایک ہی طریقہ تھا کہ نوید کو بتا دیا جائے "لائیو شو" ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر آپ انتظار کریں گے اور نوید عالم پینتیس چالیس منٹ تاخیر کے ساتھ مسکراتے مسکراتے سٹوڈیو میں داخل ہوں گے۔ ایک مرتبہ خواجہ ذکائ الدین سٹوڈیو میں انتظار کر رہے تھے نوید عالم کو فون کیا تو کہنے لگے کہ بس لاہور داخل ہو گیا ہوں، خواجہ صاحب نے فوراً کہا ابھی خانپور نہر پر ہو گا، یہ شروع سے ایسا ہے۔ نوید ساری زندگی گذر گئی ہے تم نہیں بدلے، جلدی پہنچ میں انتظار کر ریا آں، نوید عالم کا تیزی سے سٹوڈیوز داخل ہونا تھوڑی دیر بعد موبائل، چارجر، سگریٹ اور دیگر سامان لے کر لہکتے لہکتے ڈرائیور یوسف بھی پہنچ جاتا اور پوچھتا پائین کسے چیز دی ضرورت تے نئیں، نوید جواب دیتے حذیفہ، ہاجرہ تے بھابھی نوں پچھ کسے چیز دی ضرورت اے تے لیا دے، سن گڈی دا اے سی بند نہ کریں۔نوید عالم سینئر صحافی سید علی ہاشمی کو "مرشد" کہہ کر پکارتے تھے، فاتح عالم پر جب کبھی مشکل وقت ہوتا تو میری سید علی ہاشمی کے ساتھ طویل گفتگو کا اختتام اس جملے پر ہوتا، شاہ جی کہتے"کیندا تے مرشد اے، مشورہ وی کردا اے لیکن سب کجھ کرن توں بعد مرضی اپنی کردا اے"۔ نوید عالم کے ساتھ گذرے ایسے درجنوں واقعات ہیں، ملاقاتیں ہیں۔ جب کہیں باہر ملنا ہوتا نوید ہمیشہ کہتے "کھانا کتھے کھانا اے حافظ صاحب ایہدا فیصلہ تسی کرو گے" ان کے ساتھ اختلاف رائے بھی ہوتا تھا اور بہت شدید ہوتا تھا لیکن کبھی تعلقات خراب نہیں ہوئے ہاں یہ ضرور ہوتا کہ رابطہ کم ہو جاتا تھا لیکن احساس کا رشتہ ہمیشہ مضبوط رہا۔ ان کے بچوں کو میں نے اپنے سامنے بڑا ہوتے دیکھا ہے۔ بھابھی صاحبہ کہا کرتی تھیں ان سے کہیں ہاکی کے علاوہ بھی کوئی بات کر لیا کریں۔ بھابھی کو بہت فکر رہتی کہ بچے بڑے ہو رہے ہیں بچوں کو نوید عالم کی زیادہ ضرورت ہے، وہ دکھی ہوتیں کہ بچوں کا وقت بھی ہاکی کھا جاتی ہے۔ خوش قسمتی کہیں یا بدقسمتی سمجھیں، نوید عالم کی زندگی ہاکی سے شروع ہو کر ہاکی پر ہی ختم ہوتی تھی۔ گھر والوں کو وقت کی کمی کی شکایت ہوتی ہو گی لیکن اس میں کچھ شک نہیں کہ نوید عالم اپنے بچوں سے بہت محبت کرتے ان کا بہت خیال رکھتے تھے۔وہ کینسر میں مبتلا ہوئے اور علاج شروع ہوتے ہی دنیا سے چلے گئے، زندگی کے آخری ایام یقیناً ان کے لیے بہت تکلیف دہ تھے کیونکہ وہ خوددار انسان تھے، زندگی وضعداری میں گذاری لیکن آخری دنوں میں پیش آنے والے واقعات نے یقیناً انہیں توڑ کر رکھ دیا ہو گا۔ وہ قومی کھیل کا ایک مزاحمتی کردار تھے، آئین و قانون کی بالادستی کی بات کرتے رہے، میر ظفر اللہ خان جمالی مرحوم کی مثالیں دیتے، خواجہ ذکائ الدین کو بزرگ کہتے کہتے "ہاؤس ان آرڈر" کرنے کی بات کرتے کرتے وہ دنیا سے چلے گئے۔ گذشتہ چودہ پندرہ برس میں انہوں نے بہت مشکلات کا سامنا کیا۔ اس دوران وہ ہاکی فیڈریشن کے ڈائریکٹر گیم ڈیویلپمنٹ بھی بنے یہ ان کی پاکستان ہاکی کے لیے آخری ذمہ داری تھی اس کے بعد ان پر دس سال کی پابندی عائد کر دی گئی وہ اس پابندی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہوئے۔ ان کے جنازے میں شرکت کے لیے شیخوپورہ گئے تو سید علی ہاشمی طبیعت کی خرابی کے باوجود نظر آئے، صحافی دوست ثنائ اللہ خان نے راستے میں کئی مرتبہ کہا یار نوید عالم بہت اچھے انسان تھے، زین ملک کہنے لگے نوید عالم کے ساتھ بہت اچھا وقت گذرا، جنازے کے شرکاء کو دیکھا تو ثناء اللہ خان نے کہا یہ نوید عالم کی کمائی ہے۔ وہ کسی کو دیکھ نہیں سکیں گے لیکن سب انہیں رخصت کرنے آئے ہیں۔ نوید عالم کے جنازے پر سب بہت افسردہ تھے۔ اللہ تعالیٰ فاتح عالم نوید عالم کے درجات بلند فرمائے۔ آمین
فاتح عالم، نوید عالم کی یاد میں!!!!
Jul 29, 2021