بوسنیا کے سرب رہنماؤں نے بوسنیا ہرزیگوینا میں 1995 میں ہونے والے مسلمانوں کے قتل عام کو نسل کشی ماننے سے ایک بار پھر انکار کردیا ہے۔
خیال رہے کہ 11 جولائی سنہ 1995 کو بوسنیائی سرب فوجیوں نے سرب کمانڈر راتکو ملادچ کی قیادت میں بوسنیا ہرزیگووینا میں سربرینیکا کے قصبے پر قبضہ کر لیا اور دو ہفتے سے بھی کم عرصے میں سرب فورسز نے منظم انداز میں 8000 سے زائد بوسنیائی مسلمانوں کو قتل کر ڈالا تھا۔
بوسنیا ہرزیگوینا کے لیے اقوام متحدہ کے اعلیٰ بین الاقوامی عہدے دار ویلنٹین انزکو نے جمعہ کو بلقان کے ملک میں نسل کشی کے انکار پر پابندی عائد کردی تھی تاکہ بوسنیا کے سربوں کی جانب سے اس کو رد کرنے کی کوششوں کا مقابلہ کیا جاسکے۔
اقوام متحدہ کے سبکدوز ہونے والے نمائندے ویلنٹین انزکو نے سرب جنگی مجرموں کو ہیرو بنانے کی مہم پر پابندی لگائی تھی۔
ویلنٹین انزکو نے ملک کے فوجداری قانون تبدیل کر کے نسل کشی کرنے والوں کو پانچ سال تک قید کی سزا دینے کی منظوری دی تھی۔
بوسنیا ہرزیگوینا کی 1992-95 کی جنگ کو ختم کرنے والے امن معاہدے پر عمل درآمد کی نگرانی کرنے والی اقوام متحدہ کی کمیٹی کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ بوسنیا کے مختلف نسل کے لوگوں میں درمیان جنگ کے بعد کے نسلی توازن اور مفاہمت کی کوششوں کو نقصان پہنچانے والے عہدے داروں کو برطرف کرسکے۔بوسنیا کی آبادی زیادہ تر مسلمانوں پر مشتمل ہے تاہم وہاں سرب اور کیتھلولک کروٹ بھی آباد ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے ویلنٹین انزکو نے کہا کہ انہوں نے نسل کشی کے انکار پر پابندی اپنے ضمیر کے مطابق لگائی تھی۔انہوں نے کہا کہ اگر آپ کسی ایسے ملک میں ہو جہاں جنگی مجرموں کو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہو یہ تو یہ اس ملک کے مستقبل کے لیے اچھا نہیں ہوسکتا۔
دوسری جانب نسل کشی کے انکار پر پابندی کے بعد بوسنیا کے سرب سیاست دان بوسنیا کے کثیرالنسلی قومی اداروں اور پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کررہے ہیں۔ملک کے مشترکہ صدارت کے سرب ممبر میلوراڈ ڈوچ نے کہا ہے کہ وہ فوجداری ضابطہ میں ہونے والی ترامیم کو قبول نہیں کریں گے۔انہوں نے انہوں نے عدالت میں ایک درخواست بھی دائر کی ہے جس میں سربرینیکا میں ہونے والے قتل عام کو نسل کشی ماننے سے انکار کردیا ہے۔
گزشتہ ہفتے بوسنیا کے مختلف مقامات پر راتکو ملادچ کی حمایت میں پوسٹر بھی آویزاں کیے گئے تھے جن میں اسے ہیرو قرار دیا گیا تھا۔ بعد میں وہ پوسٹر اتروادیے گئے۔
بی بی سی کے مطابق یہ قتلِ عام بوسنیائی جنگ کے دوران بوسنیائی سرب فورسز کے ہاتھوں مسلمانوں کی نسل کشی کا ایک حصہ تھا۔ بوسنیائی جنگ سنہ 1990 کی دہائی میں یوگوسلاویہ کے بکھرنے کے دوران ہونے والے کئی مسلح تنازعات میں سے ایک تھی۔
اس وقت سوشلسٹ ریپبلک آف بوسنیا اینڈ ہرزیگووینا کہلانے والی یہ ریاست یوگوسلاویہ کا حصہ تھی اور یہاں کئی اقوام آباد تھیں جن میں بوسنیائی مسلمان، قدامت پسند سرب اور کیتھولک کروٹ افراد شامل تھے۔بعد میں بوسنیا ہرزیگووینا نے سنہ 1992 میں ایک ریفرینڈم کے ذریعے اپنی آزادی کا اعلان کر دیا اور اسے کچھ ہی عرصے بعد امریکی اور یورپی حکومتوں نے تسلیم کر لیا۔
مگر بوسنیائی سرب آبادی نے ریفرینڈم کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔ اس کے بعد جلد ہی سربیا کی حکومت کی حمایت یافتہ بوسنیائی سرب فورسز نے نئے تخلیق شدہ اس ملک پر حملہ کر دیا۔انھوں نے اس علاقے سے بوسنیائی لوگوں کو نکالنا شروع کر دیا تاکہ ’گریٹر سربیا‘ بنایا جا سکے۔ یہ پالیسی نسلی کشی کے مترادف تھی۔
سنہ 2017 میں ہیگ میں اقوام متحدہ کے ایک ٹربیونل نے ملادچ کو نسل کشی اور دیگر مظالم کا مرتکب قرار دیا۔ کمانڈر ملادچ سنہ 1995 میں جنگ کے خاتمے کے بعد روپوش ہوگئے تھے اور سنہ 2011 میں شمالی سربیا میں اپنے کزن کے گھر میں ملنے سے پہلے کہیں نظر نہیں آئے تھے۔سربیا نے جنگ کے خاتمے کے بعد وہاں رونما ہونے والے جرائم پر معذرت کر لی ہے لیکن پھر بھی اس نے اسے نسل کشی ماننے سے انکار کیا ہے۔