اسلام آباد(آئی این پی )پاکستان میں 40ہزار ہیکٹر رقبے پر زیتون کے چار کروڑ پودوں کی کاشت،پوٹھوہار کو وادی زیتون قرار دیدیا گیا، پاکستان زیتون کا تیل درآمد کرنے والا 64 واں بڑا ملک بن گیا،5سالوں میں زیتون کی مقامی طلب کا 50فیصد پورا کرنے کا ہدف، درآمدات پر انحصار کم ہو گا اور زرمبادلہ کے ذخائر بچ جائیں گے۔ویلتھ پاک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں زیتون کی کاشت کے لیے فضا موجود ہے اور زیادہ رقبہ زیر کاشت لانے سے ملک کو تیل کی درآمدات پر انحصار کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد مل سکتی ہے۔ نیشنل ایگریکلچرل ریسرچ سینٹر کے سائنٹیفک آفیسر زبیر اکرام نے کہاکہ پاکستان میں زیتون کی کاشت کے لیے بہت زیادہ کوششیں کی جا رہی ہیںاورہم زیتون کے تیل کی پیداوار میں خود کفیل ہو سکتے ہیںجس سے ہمیں اپنے درآمدی بل کو کم کرنے اور زرمبادلہ کے ذخائر کو بڑھانے میں مدد ملے گی۔پاکستان میں زیتون کی کاشت پر تحقیق 1980 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوئی لیکن پچھلے پانچ سالوں تک کسی نے اس صنعت پر زیادہ توجہ نہیں دی۔ اس عرصے کے دوران اس کی پیداوار کافی اچھی رہی ہے۔ پاکستان میں تقریبا 40,000 ہیکٹر رقبہ پر 40 ملین سے زیادہ پودے لگائے گئے ہیں اورہم پورے ملک میں خاص طور پر خیبر پختونخواہ اور پوٹھوہار کے علاقے میں زیتون کی کاشت کر رہے ہیں۔ پوٹھوہار کے علاقے کو زیتون کی وادی قرار دیا گیا ہے جس سے زیتون کی پیداوار میں اضافہ ہوگا اور تیل کی درآمد پر خرچ ہونے والے لاکھوں ڈالر کی بچت میں مدد ملے گی۔انہوں نے کہا کہ یہ ڑوب، خضدار، کوئٹہ، ڈی جی خان اور رکھنی کے علاقوں سمیت بلوچستان میں بھی اگائی جاتی ہے۔ اس سال ہم سرکاری سطح پر سندھ میں ٹرائلز کر رہے ہیں۔پاکستان 2020 میں 5.81 ملین ڈالر مالیت کا تیل منگواکر دنیا میں خالص زیتون کا تیل درآمد کرنے والا 64 واں بڑا ملک بن گیا۔ خالص زیتون کا تیل اس سال پاکستان کی 543 ویں سب سے زیادہ درآمد کی جانے والی شے تھی۔ سپین ، ترکی ،تیونس ،اٹلی اور متحدہ عرب امارات وہ اہم ممالک ہیں جہاں سے پاکستان خالص زیتون کا تیل خریدتا ہے۔انہوں نے کہا کہ نے کہا کہ این اے آر سی زیتون کی آٹھ اقسام کاشت کر رہا ہے جبکہ بارانی ایگریکلچرل ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے زیتون مرکز نے تقریبا 25 اقسام متعارف کروائی ہیں۔انہوں نے کہا کہ زیتون کے درخت خشک سالی کے لیے کافی مزاحم ہیں۔ وہ چٹانی مٹی کے ساتھ خشک خشک علاقوں میں پروان چڑھتے ہیں جو دوسری فصلوں کے لیے زیادہ مشکل ہوتے ہیںلیکن پھر بھی انھیں پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زیتون کو سردیوں میںہر 5 سے 6 دن بعد پانی کی ضرورت ہوتی ہے اور گرمیوں میںہر 4 سے 5 دن بعدضرورت ہوتی ہے۔انہوں نے کہا کہ ہم زیتون کی پیداوار کے لیے ڈرپ اریگیشن سسٹم کو استعمال کر رہے ہیں جسے حکومت نے ابتدا میں مفت فراہم کیا تھا لیکن فی الحال اسے 30 فیصد سبسڈی کے ساتھ فراہم کیا جا رہا ہے۔انہوں نے کہا کہ جہاں تک زمین کی ضروریات کا تعلق ہے زمین کو برابر کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ یہ ایک سخت اور لچکدار پودا ہے اور ہر پہاڑی علاقہ اس کی کاشت کے لیے موزوں ہے۔ اگر ہم اسی طرح کام کرتے رہے تو تقریبا 5 سے 7 سالوں میں ہم اپنی مقامی طلب کا تقریبا 40 سے 60 فیصد پورا کر سکیں گے جس سے درآمدات پر ہمارا انحصار کم ہو جائے گا اور زرمبادلہ کے ذخائر بچ جائیں گے۔