آصف علی زرداری کو کرونا ہو گیا، گھر میں قرنطینہ لے لیا
جناب جب پنجاب کی بازی ہاتھ سے نکل رہی تھی تو زرداری صاحب اس وقت دبئی پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے اپنی سالگرہ بھی وہاں نواسے کے ساتھ منائی۔ چلیں یہ تو ان کا حق تھا۔اس پر کوئی کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مگر عین میدان جنگ سے اس وقت نکل جانا جب آخری معرکہ درپیش ہو تو یہ کونسی دانشمندی تھی۔ اسے مخالفین راہ فرار کہہ کر خوشیاں منا رہے ہیں۔ اب تو پی ٹی آئی کے جلسوں میں ’’عمران کا وار سب سے کاری‘‘ کے نعرے لگیں یانغمے گائے جائیں ان کو کون روک سکتا ہے۔ فی الحال یہ نعرہ ابھی ایجادہوا ہے۔ کیا معلوم اسے سب پہ بھاری والے نعرے کی طرح مقبولیت حاصل ہو جائے۔ تو جملہ حقوق محفوظ سمجھیں۔ معلوم نہیں آصف زرداری چپکے سے واپس آ گئے ہیں یا فی الحال دبئی میں ہی ہیں۔ تاہم یہ ضرور پتہ چلا ہے کہ ان کی کرونا رپورٹ مثبت آئی ہے جس کی وجہ سے انہوں نے گھر میں خود کو قرنطینہ کر لیا ہے۔ خدا جانے کہیں یہ موجودہ حالات سے جان چھڑانے کا بہانہ تو نہیں جسے سیاسی کرونا بھی کہا جا سکتا ہے۔ اگر واقعی وہ کرونا کا شکار ہوئے ہیں تو کسی کو حق نہیں کہ وہ اس پر بیان بازی کرے یا نشتر چلائے۔ اس وقت پاکستانی سیاست میں اگر کوئی رونق میلہ لگا ہے تو وہ زرداری صاحب کی وجہ سے ہی ہے جو عین وقت پر کسی کے بھی رنگ میں بھنگ ڈالنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔ اس لیے دعا کرنی چاہیے کہ وہ جلد صحت یاب ہو کر ایک بار پھر سیاسی بساط پر سجی بازی میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔
٭٭٭٭
حمزہ شہباز کی کابینہ میں شامل ہونے والے وزراء نے گاڑیاں اور سرکاری عملہ واپس کر دیا
جن دفاتر میں وزرا ء کو بیٹھنا بھی نصیب نہ ہوا جن رہائشگاہوں میں انہیں گھسنے کا موقع بھی نہ ملا۔ انہیں خالی کرنے میں بھلا کون سا وقت لگنا تھا۔ مگر یہ ایک اچھی بات ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز اور ان کی کابینہ کے ارکان نے بنا کسی بہانے کے بلاچوں چرا ںملنے والی سرکاری گاڑیاں اور عملہ واپس کر دیا یہ ایک اچھی روایت ہے ورنہ وزراء سے سرکاری گاڑیاں واپس لینا اور دفاتر و رہائشگاہیں خالی کروانا کسی درد سری سے کم نہیں ہوتا۔ ماضی میں اکثر ایسا ہوتا آیا ہے کہ وزراء جاتے ہوئے اپنے ساتھ گاڑیاں، آفس اور رہائشگاہوں میں موجود سامان تک ساتھ لے گئے جو روکنے پر بڑے دھڑلے سے کہتے تھے یہ ان کو استعمال کے لیے ملا تھا واپس کیوں دیں۔ اگران سابق وزراء کے معاملات کی پڑتال کی جائے تو اکثر کے گھروں سے پردے، کراکری، کارپٹ صوفے اور سرکاری طور پر ملنے والی دیگر اشیاء نکل سکتی ہیں۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کیسے کیسے نادیدہ لوگ اس دیدہ ور قوم کے سروں پر مسلط رہے تھے۔ کاش کوئی دیدہ ور اس قوم کو مل جائے جو اس قوم کو لوٹنے کھسوٹنے کی بجائے اپنا سب کچھ بھی اس پر لٹائے مگر وہی حضرت اقبال کی بات سامنے آتی ہے کہ
’’بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا‘‘ سو اس وقت اپنا دھن دولت قوم پر لٹانے والا ہمارے پاس کوئی نہیں ہے۔
٭٭٭٭٭
پنجاب میں گورنر راج اور وفاقی حکومت کو گرانے کی باتیں
پنجاب میں مسلم لیگ نون کی حکومت کے خاتمے کے بعد سیاسی میدان میں گرما گرمی مزید بڑھ گئی ہے۔ ’’دونوں طرف ہے آگ برابر لگی ہوئی‘‘ پنجاب اب نون لیگ کے ہاتھوں سے نکل کر ق لیگ کے ہاتھ لگ چکا ہے۔ مگر سچ کہیں تو یہ فتح ادھوری ہے۔ کیونکہ اصل طاقت پی ٹی آئی والوں کے پاس ہے جس کے 176 ارکان اس وقت پنجاب اسمبلی کے ممبر ہیں جبکہ وزیر اعلیٰ کے پاس صرف 10 پتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ ہونے کے باوجود وہ عمران خان کے ویسے ہی تابع فرمان ہوں گے جس طرح کبھی عثمان بزدار ہوا کرتے تھے۔ بہرحال پنجاب کی پگ اب ان کے سر ہے اور اس بات پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کافی سیخ پا ہیں اور پنجاب میں کسی آئینی یا قانونی جگاڑ کے ذریعے گور نر راج لگانے کی باتیں کر رہے ہیں۔ جس کا امکان ہو یا نہ ہو مگر پنجاب کے حکمران اتحاد کو پریشانی تو ضرور ہو رہی ہے۔ اس کے جواب میں پی ٹی آئی والے وفاقی حکومت کو جب چاہیں گرانے کی بات کر کے اسلام آباد کے ایوان اقتدار میں زلزلہ لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ظاہر ہے یہ ممکن ہو یا نہ ہو مگر حکمران اتحاد تو پریشان ضرور ہو گا۔
اس طرح کی دو انتہائوں کی وجہ سے نظر نہیں آتا کہ ملک میں جلد سیاسی صورتحال میں بہتری آئے۔ حالات یونہی رہے تو عوام کا کیا بنے گا۔ ویسے بھی ہاتھیوں کی لڑائی میں نقصان گھاس کا ہی ہوتا ہے۔ شاید یہی پاکستانی عوام کے ساتھ بھی ہو رہا ہے۔ کہتے ہیں بڑے ڈیل ڈول کے باوجود ہاتھیوں کا دماغ چھوٹا ہوتا ہے تو دعا کریں خدا ہمارے سیاسی ہاتھیوں کا دماغ بڑا کر دے۔یا ان کے دماغوں سے یادماضی والا حصہ اڑا دے۔
٭٭٭٭٭
ہائی کورٹ کا بیٹے کی بازیابی کے لیے جھوٹی درخواست دینے والے کو 3 لاکھ روپے جرمانہ
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے ہر ایسی درخواست پر جو جھوٹ ہو ایسے ہی بھاری جرمانے عائد کر کے اس غلط درخواست بازی کی عادت سے چھٹکارا پایا جا سکتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں قانون کی نرمی کی وجہ سے عدالتوں میں ایسی ہزاروں درخواستیں جمع ہیں جو جھوٹی ہیں۔ اس سے نا صرف عدالتوں کا وقت برباد ہوتا ہے۔ بلکہ دوسرے مقدمات بھی متاثر ہوتے ہیں۔ سیاسی ہو یا غیر سیاسی دیوانی ہو یا فوجداری جھوٹی درخواست دائر کرنے والوں سے نجات کا یہی راستہ ہے کہ انہیں بھاری جرمانہ کیا جائے پھر بھی جو باز نہ آئے اسے سخت سزا دی جائے۔ پہلے کیا کم عدالتوں پر مقدمات کا بوجھ ہے کہ یہ بلا بھی گلے پڑی رہتی ہے۔ اب جس شخص نے اپنے بیٹے کی بازیابی کے لیے جھوٹی درخواست دی تھی وہ تو پچھتا رہا ہو گا کہ یہ کیا ہو گیا، لینے کے دینے پڑ گئے۔ معلوم نہیں اس نے ایسا کیوں کیا۔اب یہ مدعی تو خود ہی جال میں پھنس گیا ہے۔ اب اسے اپنی گِرہ ڈھیلی کر کے 3 لاکھ عدالت میں جمع کرانے ہوں گے۔ امید ہے اس جھٹکے کے بعد موصوف کافی عرصہ تک کسی ایسی کارروائی سے اجتناب کریں گے جس سے ایسا کوئی دوسرا جھٹکا لگے۔ اب اگر یہ کرارا ہاتھ سب جھوٹے درخواست گزاروں پر پڑے تو ان کی بھی تسلی ہو جائے گی جس کے بعد عدالتی راوی چین ہی چین لکھے گا۔
٭٭٭٭٭