اس وقت پاکستان اور اس کے عوام سیاسی‘ معاشی اور موسمی سیلابوں کی وجہ سے بے پناہ مسائل کا شکار ہے‘ لیکن ان مسائل کے حل کیلئے کسی کے پاس بھی کوئی تجویز یا منصوبہ بندی سرے سے موجود نہیں ہے۔ حکومت اور اپوزیشن ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کو گرانے اور نیچا دکھانے کے کھیل میں مصروف ہیں۔ اس کے باوجود بھی سب سیاستدان جمہوریت‘ عوام کی خدمت ‘ ملک کی ترقی اور خوشحالی کے چیمپین بنے ہوئے ہیں کس قدر دکھ اور افسوس کا مقام ہے کہ اب سیاست اور حکومت کے زیادہ تر فیصلے عدالتوں میں ہو رہے ہیں کیونکہ ہمارے ’’عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار اور جمہوریت پسند سیاست دان‘‘ ایک دوسرے کی شکل تک دیکھنے کو تیار نہیں ہیں ۔ طوفانی بارشوں اور سیلاب سے بہت سی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں اور اربوں روپے مالیت کی فصلیں جائیدادیں اور مکانات سیلاب کی نذر ہو چکے ہیں‘ لیکن کسی ایک سیاستدان نے بھی اس مسئلے پر ایک بیان تک جاری نہیں کیا۔ جماعت اسلامی اور دیگر رضا کار تنظیمیں اگر بارشوں اور سیلاب سے متاثرہ افراد کی مدد کیلئے آگے نہ بڑھتیں تو صورتحال اس سے بھی زیادہ خراب ہوتی۔ دوسری طرف پاک فوج نے بھی ’’ریسکیو اور ریلیف‘‘ آپریشن زوروشور سے شروع کئے اور ہزاروں قیمتی جانیں بچائیں ۔ ابھی ملک کے مختلف علاقوں میں شدید ترتن بارشوں ‘ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا سلسلہ جاری ہے۔ اس تباہ کن صورتحال کے باوجود ہمارے سیاستدانوں میں نہ ختم ہونے والا ’’سیاسی رسہ کشی کا کھیل‘‘ جاری ہے۔ ہمارے سیاستدانوں کو اقتدار سے زیادہ کوئی چیز عزیز نہیں ہے۔ ہر سیاستدان یہ تو کہتا ہے کہ ’’اﷲکرے پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا نہ کرنا پڑے‘‘ لیکن اس سے آگے ’’ لمبی خاموشی اور فل سٹاپ۔‘‘ ہمارے سیاستدان معیشت کی تباہی کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالنے میں لگے ہوئے ہیں اور اس پر قطعاً غور نہیں کرتے کہ آخر ہمارا حال ایسا کیوں ہے اور ہم اس خطرناک صورتحال سے کیسے باہر نکل سکتے ہیں۔ اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ سری لنکا میں سیاسی عدمِِِِِِ استحکام عروج پر تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر اور برآمدات تیزی سے کم ہو رہی تھیں۔ توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک کی مجموعی قومی پیداوار میں ریکارڈ کی ہو گئی تھی۔ ملک میں بحران کی وجہ سے زرعی، صنعتی اور تجارتی شعبے تباہی کا شکار ہوئے اور خاص کر زرمبادلہ کمانے کا تیز ترین ذریعہ ’’سیاحت‘‘ کا بھٹہ بیٹھ چکا تھا۔ ملکی ضروریات کو پورا کرنے کیلئے درکار مصنوعات زرمبادلہ کی کمی کی وجہ سے درآمد نہیں ہو رہی تھیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر ریکارڈ حد تک کم ہونے کی وجہ سے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی ناممکن ہوگئی تھی۔ اگر ہم اس تناظر میں پاکستان کی موجودہ سیاسی مالی اور معاشی صورتحال کا جائزہ لیں تو ہمیں ہر طرف خطرے کی گھنٹیاں بجتیں نظر آئیں گی جبکہ اقتدار کے ایوانوں سے ہمیں ’’سب اچھا ہے‘‘ کی صدائیں سننے کو مل رہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں اور اپوزیشن سمیت سب سیاستدانوں کے اِن عمومی رویوں پر قوم میں بددلی‘ مایوسی‘ بے چینی‘ بے یقینی اور ذہنی خلفشار میں اضافہ ہورہا ہے ۔ قوم کو علم ہے کہ ہمارے زر مبادلہ کے ذخائر تیزی سے کم ہورہے ہیں۔ فروری2022 ء میں16 ملین ڈالر کے ذخائر میں تقریباً 40 سے 45 فیصد کمی ہوچکی ہے اور ابھی یہ سلسلہ جاری ہے دوسری طرف روپے کی قدر میں کمی اور ڈالر کی ’’اڑان میں ریکارڈ اضافہ ‘‘ ہوتا جارہا ہے۔ ہماری برآمدات میں کمی اور درآمدات میں مسلسل کمی ہو رہی ہے۔ توانائی کی آئے روز بڑھتی ہوئی قیمتوں‘ بجلی‘ گیس کے نئے ٹیرف اور ٹیکسوں کی بھرمار نے ملکی معیشت کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ افراط زر‘ شرح سود اور بیروزگاری میں اضافے کی وجہ سے ملک کا ہرشعبہ متاثر ہو رہا ہے۔ آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پر بننے والے بجٹ نے عوام کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ روزمرہ اشیائے ضرورت کی قیمتوں میں اضافے اور منہ توڑ مہنگائی نے عوام کو نفسیاتی اور ذہنی مریض بنا ڈالا ہے۔ ایسی کربناک اور تکلیف دہ صورتحال میں حکمرانوں کے یہ دعوے کہ ہم نے ’’ملک و قوم کے مفاد میں سخت مشکل فیصلے کئے ہیں‘‘ عوام کے احساسات اور جذبات کو مجروح کرنے کے برابر ہے۔ ہمارے قرضے جی ڈی پی کی محفوظ حد کب سے پار کر چکے ہیں جبکہ گردشی قرضوں کے گورکھ دھندے میں ہم بری طرح پھنس چکے ہیں۔ ادھر بجلی کی طلب میں مسلسل اضافے اور اس کی رسد میں کمی کیساتھ ساتھ ایل این جی کے بحران نے موجودہ معاشی بحران کو بڑھاوا دیا ہے۔ اس وقت ہم اپنی کاہلی‘ ناقص پلاننگ اور عدم توجہی کی وجہ سے ایل این جی سپاٹ پرائس پر خرید کر زرمبادلہ کے خزانے پر کاری ضرب لگا رہے ہیں۔ ہمارے مالیاتی اور معاشی ماہرین اور حکمران یہ بات بھول جاتے ہیں کہ اگر ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر اسی طرح گرتے رہے تو ’’سری لنکا جیسا منظرنامہ‘‘ ہمیں ’’چھٹی کا دودھ‘‘ یاد کروا سکتا ہے۔ لہٰذا انہیں چاہئے کہ وہ موجودہ خطرناک اور بحرانی صورتحال پر ’’سب اچھا ہے‘‘ کے دلفریب بیانات دینے سے اجتناب کریں ۔ہم نے اس ملک کو سیاسی‘ معاشی اور موسمیاتی سیلابوں سے محفوظ رکھنے کیلئے اتفاق کے ساتھ پورے عزم‘ حوصلے‘ محنت اور جذبے کے ساتھ کام کرنا ہے اوریہ بات ذ ہن نشین رکھنی ہے کہ راستہ کٹھن‘ دشوار گزار اور طویل ہو سکتا ہے‘ لیکن اسے طے کرنا ہرگز ناممکن نہیں۔ آیئے ہم سب قدم سے قدم ملا کر آگے بڑھیں اور اس ملک کو ہرطرح کے سیلابوں سے محفوظ رکھیں اور اسے ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن کردیں۔