بھارتی مقتل میں امن کا بجھتا چراغ

تہاڑ جیل میں یٰسین ملک کی بھوک ہڑتال سے خوش بھارتی حکمران اگر یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح وہ آزادی کشمیر کے ایک اور مجاہد کو مار دیں گے تو یہ ان کی بھول ہے کیونکہ
کہ رات جب کسی خورشید کو شہید کرے 
تو صبح اک نیا سورج تراش لاتی ہے 
مقبوضہ کشمیر کے ہر دل عزیز حریت رہنما یٰسین ملک جن کا شمار تحریک آزادی کشمیر کے بانیوں میں ہوتا ہے آج کل دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں بھوک ہڑتال پر ہیں۔ وہ پہلے ہی دل کے مریض ہیں۔ بھوک ہڑتال کی وجہ سے ان کی حالت بہت خراب ہو چکی ہے۔
 یٰسین ملک کا شمار جدید تحریک آزادی جو 1989ء سے شروع ہوئی ہے کے سخت گیر رہنمائوں میں شمار ہوتا تھا۔ انہوں نے دل کی بیماری کے باوجود بھارتی غاصب افواج کے خلاف کئی خونریز معرکوں میں حصہ بھی لیا وہ حریت پسندوں کے مشہور زمانہ ’’حاجی گروپ‘‘ میں سے ایک کمانڈر تھے جن میں سے اشفاق مجید وانی اور حمید شیخ کی بھارتی فوج کے ہاتھوں میدان جنگ میں شہادت کے بعد انہیں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا عسکری کمانڈر مقرر کیا گیا۔ انہوں نے اپنے فکری قائد مقبول بٹ شہید کی طرح کئی مرتبہ سیز فائر لائن کو روندتے ہوئے مقبوضہ کشمیر سے آزاد کشمیر آئے ۔ پھر اپنوں کی مہربانیوں راہ میں بے یارو مددگار چھوڑنے کے بعد انہوں نے 1995ء میں بھارتی فوج کے ساتھ پے درپے مقابلوں اور حلیفوں کی مخبری کی وجہ سے جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے بے یارو مددگار حریت پسندوں کی شہادتوں اور اسلحہ کی کمی کے سبب مسلح جدوجہد کو عوامی جدوجہد میں بدلنے کا فیصلہ کیا۔ جس کے بعد جے کے ایل ایف نے عوامی سطح پر پرامن تحریک آزادی کا آغاز کیا جس میں لاکھوں کشمیریوں نے ان کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ان کی حمایت کا اعلان کیا۔ یہ جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کا ایک نیا جنم تھا جس میں یٰسین ملک نے مقبوضہ وادی جموں و کشمیر کا دورہ کر کے عوام تک جے کے ایل ایف کا پیغام پہنچایا۔ اس کام میں صرف مسلمان ہی نہیں جموں کشمیر کے ہندو بھی  یٰسین ملک کے ہمنوا تھے۔ عالمی سطح پر اس کا اچھا اثر گیا۔یوں جے کے ایل ایف نے پرامن تحریک آزادی کی حمایت حاصل  کرکے اپنے کوپرامن آزادی پسند جماعت یا تحریک کے طور پر منوایا۔  یٰسین ملک کا نکتہ نظر یہ ہے کہ عسکری طاقت کی اہمیت اپنی جگہ بھارت کو مذاکرات کی میز پر لانا ضروری ہے جس میں پاکستان، ہندوستان اور کشمیری تینوں فریق مل کر اس دیرینہ حل طلب مسئلے کے حل کے لیے سوچ بچار کر کے ا قوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اس کا حل نکالیں ۔
مگر افسوس کی بات ہے کہ بھارت جو اپنے کو ایک جمہوری ملک کہتا ہے۔ امن کی اس راہ پر چلنے کو تیار نہیں۔ وہ 2019ء میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت اور وہاں غیر کشمیریوں کی آبادکاری کی ممانعت بھی ختم کر کے کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر چکا ہے۔ اب لداخ براہ راست دہلی سرکار کے کنٹرول میں ہے اور ریاست جموں کشمیر کو بھارت ضم کر کے اپنی سٹیٹ کا درجہ دے چکا ہے۔ جس کے ساتھ وہاں اب ہندو غیر کشمیریوں کو رہائش اور نوکریوں کے لیے دھڑا دھڑ غیر قانونی ڈومیسائل جاری ہو رہے ہیں۔ بھارت کی اس غیر قانونی سرگرمیوں پر خود کشمیری ہندو پنڈت بھی سراپا احتجاج ہیں۔ صرف یہی نہیں جموں کے ڈوگرے و دیگر ہندو برادریاں بھی شور مچا رہی ہیں کے اس طرح ان کے حقوق بھی متاثر ہو رہے ہیں۔ ان کی نوکریوں اور مستقبل کے منصوبوں پر زد پڑ رہی ہے۔ 
ان حالات میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بھارت جو پہلے ہی مسلح مجاہدین کی پے درپے کامیابیوں اور جنگی حکمت عملی کے سامنے بے بس نظر آتا ہے آئے روز کئی بے گناہ کشمیریوں کو قتل کر رہا ہے۔ وہ اس پرامن بات چیت کی راہ پر چلتا مگر بھارت نہایت ڈھٹائی کے ساتھ پرامن راہ سے مسئلہ کشمیر کو حل کرنے کے داعی کو جھوٹے پرانے مقدمات میں عمر قید کی سزا سُنا کر اب ان کی زندگی سے کھیلنا چاہتا ہے۔ دہلی کی بدنام زمانہ تہاڑ جیل میں پہلے ہی شہید کشمیر مقبول بٹ کو پھانسی کے بعد چپکے سے دفنایا گیا پھر اس کے بعد جے کے ایل ایف کے ایک اور جری مجاہد افضل گورو کو بھی پھانسی دے کر چپکے سے دفنایا گیا۔ کیا اب بھارت جے کے ایل ایف کی ایک اور توانا آواز کو جس نے مسئلہ کشمیر کے پرامن حل کے لیے اپنے مستقبل کو دائو پر لگایا۔ خاموشی سے تہاڑ جیل کی ایک اور بے نشان قبر میں اتارنا چاہتا ہے یاد رکھیں :
شب کے سفاک خدائوں کو خبر ہو کہ نہ ہو 
جو کرن قتل ہوئی شعلہ خورشید بنی 
اگر پرامن راہ سے مسئلہ کشمیر کی راہ دکھانے والا یہ چراغ بجھ گیا تو پھر شاید بھارت کو خواہش کے باوجود امن کی راہ نصیب نہیں ہو گی۔ 

ای پیپر دی نیشن