قربان علی سالک کے ضرب المثل شعر سے سب آگاہ ہیں ہے
تنگ دستی اگر نہ ہو سالک
تندرستی ہزار نعمت ہے
اللہ کی نعمتوں میں سے صحت سب سے بڑی اور عظیم نعمت ہے۔ اللہ تعالی نے انسان، جنات اور اسی طرح بہت سی چیزیں پیدا کیں اور اپنی مخلوقات کو ایسی ایسی نعمتوں سے نوازا جن کا احصا و شمار ممکن نہیں۔ جیسا کہ اللہ رب العالمین کا فرمان ہے " اگرتم اللہ کی نعمتوں کا شمار کرنا چاہو تو تم اسے نہیں کر سکتے۔ بے شک اللہ بڑا بخشنے والا مہربان ہے " ۔ گویا بندے کو اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر کرتے رہنا چاہئے۔ یاد رہے دو نعمتیں ایسی ہین کہ اکثر لوگ ان کی قدر نہیں کرتے ۱۔ صحت و تندرستی ۲ فارغ البالی یعنی کام کاج سے فراغت۔ جب دونوں نعمتیں اللہ پاک عطا کرے تو انسان کو فوری طور پر ان سے استفادہ کرنا چاہئے۔صحت میں ذرا سے خرابی سے انسان بے چین ہو جاتا ہے۔ اس لئے یہ بات بے حد ضروری ہے کہ صحت کا خاص خیال رکھا جائے۔ اگر کسی کوتاہی سے ایک بار صحت میں فرق آ جائے تو یہ ساری عمر کا روگ بن جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج کا دور پریشانیون اور مشکلات سے عبارت ہے۔ انسان کو کسب معاش کے لئے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ جس کے باعث انسانی جسم تھک جاتا ہے۔ اور انسان تفریح نہ کرے تو یقینا صحت پر منفی اثرات مرتب ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔ انسانی رویوں میں اہم تبدیلی رونما ہو سکتی ہے۔ کام میں عدم دلچسپی اور چڑ چڑا پن پیدا ہو سکتا ہے۔ تفریح انسان کی تھکاوٹ دور کر کے اسے پھر تازہ دم کر دیتی ہے۔کھیل ایک ایسا شعبہ ہے جس میں فطری طور پر انسان دلچسپی لیتا ہے۔کھیلوں میں ورزش خود بخود ہو جاتی ہے اور انسان ہشاش بشاش رہتا ہے۔ کھیل انسان کو نظم و ضبط سکھاتا ہے۔ نیز قوت برداشت، ضبط نفس ، معاشرتی ہم آہنگی کا جذبہ پیدا
کرتا ہے۔کھیل صرف تفریح کا ذریعہ ہی نہیں بلکہ یہ انسانی جسم اور دماغ کو ترو تازگی فراہم کرتے ہیں۔ کھیل کسی بھی قسم کے ہوں ان ڈور یا آؤٹ ڈور ہر طرح سے انسانی جسم پر مثبت اثر ڈالتے ہیں ۔دماغی صلاحیتوں اور ذہنی قابلیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ کھیل کی ا ہمیت کومد نظررکھتے ہوئے۔ گوجرخان کی سیاسی معاشرتی و سماجی زندگی میں بھرپور تازگی اور چاشنی لانے کے لئے مشہور سماجی شخصیت شوکت محمود قاضی اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ انھوں نے سب پہلے علم دوستی کے فروغ کے لئے اوشین مال ، سوزوکی موٹرز کے ساتھ سید آل عمران کی یاد میں ایک کتب خانے کا قیام عمل میں لایا۔ یا د رہے سید آل عمران بھی گوجرخان کے سید گھرانے کے سپوت تھے ایک درجن سے زائد کتابوں کے مصنف تھے۔ انھوں نے پوٹھوہاری زبان کے فروغ کے لئے وہ کردار ادا کیا جو آج تک پوٹھوہار کی تاریخ میں کوئی نہ کر سکا ۔ یہ کتب خانہ جدید طرز پر قائم کیا گیا ہے جس سے گوجرخان کے شاعر، ادیب ، لکھاری،اور طلبہ و طالبات دیگر علم دوست بھرپور استفادہ کر رہے ہیں۔ گوجرخان میں شوکت محمود قاضی صاحب نے پہلی قسم کا ایک ایسا سویمنگ پول جو جدید ٹیکنالوجی سے لیس ہے۔ اور سمندری لہروں کو جنم دیتا ہے۔ ایسی سہولت پاکستان میں اس سے پہلے نہیں ہے۔ یہ گوجرخان کے لوگوں کے لئے بہت بڑی سہولت ہے۔ زندگی کی جدوجہد میں وہی لوگ کامیاب ہوتے ہیںجن کی صحت اچھی ہوتی ہے۔ جو لوگ کھیل ورزش کی جانب دھیان نہیں دیتے ان کی صلاحیتیں ماند پڑجاتی ہیں۔ ان کی صحت کمزور ہو جاتی ہے۔ کمزوری کئی طرح کی ہوتی ہے ۔ کسی کی نظر، کسی کے پٹھے، کسی کی سماعت، کسی کو سینے کی بیماری، کسی کو پیٹ کی بیماری لگ جاتی ہے۔ پھر لوگ ڈاکٹروں کے پاس دوڑتے ہیں۔ وہ ایک اور تکلیف دہ عمل ہے۔ اور ڈاکٹر بعض اوقات مرض کی تشخیص کرنے میں ناکام رہتے ہیں ۔ اور بے جا ادویات کے استعمال سے مریض کی صحت مزید خراب ہو جاتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ورزش کے مقابلے میں بچوں کیلئے کھیل کود بہت بہتر ہوتا ہے۔ کیونکہ کھیل کے ساتھ ساتھ ورزش بھی ہو رہی ہوتی ہے۔ ایک دوسرا مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ کیونکہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہے ہوتے ہیں اور خوب انجائے کر رہے ہوتے ہیں۔ اور خوشی انسانی کی صحت پر مثبت اثرات مرتب کرتی ہے۔ اسطرح ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کھیل بچوں کے لئے بہت ضروری ہے۔ جس کے ذریعے ورزش بھی ہو جاتی ہے۔ اور صحت بھی برقرار رہتی ہے اور ایسے بچے زندگی بھر اپنے کام کاج انتہائی مستعد ی سے کرتے ہیں۔ان کی زندگیوں میں ڈسپلن آ جاتا ہے۔ بچوں کی نشو نما کے لئے ایک فن سٹی کا قیام بھی عمل میں لایا گیا ہے۔ جس میں گوجرخان کی ایک اور سماجی شخصیت جناب چوہدری شبیر انور بھی میدان میں آ گئے ہیں جو شوکت محمود قاضی صاحب سے ساتھ مل کر اس شعبے کو چلا رہے ہیں۔یاد رہے ہر کھیل کے قواعدو ضوابط ہوتے ہیں۔ کھیل مقررہ وقت پر شروع ہوتا ہے اور اسطرح ختم ہوتا ہے۔ اس میں کھلاڑیوں نے ہار جیت کا فیصلہ بھی کرنا ہوتا ہے۔اس طرح کھلاڑیوں میں وقت کی اہمیت کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ وقت کی پابندی کی عادات کی مشق ہوتی ہے۔ اور پھر ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ اور کام کو اپنے وقت پر کرنے اور اس میں کوتاہی نہ کرنے کا احساس پیدا ہو جاتا ہے۔ یہ عادات مستقبل میں کھلاڑیوں کے لئے کامیابی کے زینے ثابت ہوتی ہیں۔ اسکے علاوہ کھیل کھلاڑیوں مین اتحاد و اتفاق کا جذبہ پیدا کرتے ہیں۔ کھلاڑی ایک دوسرے سے ہمدردی کرتے ہیں۔ کھیل کا میدان کھلاڑیوں کو ادب آداب اور قانون پر عملداری سکھاتا ہے ۔ کیونکہ کھلاڑی ایک قانون کے تحت کھیل رہے ہوتے ہیں جو قومیں ورزش اور کھیل کو اپنی زندگی کا جزو سمجھتی ہیں وہ یقینا وہ اپنے بچوں کی ذہنی صلاحیتوں کو بڑھا کر قومی سلامتی اور قومی جذبے اور ملکی نظریے کو پروان چڑھاتی ہیں تا کہ تعلیم حصول ملازمت کے لئے نہیں بلکہ ملکی خدمت کے لئے حاصل کریں۔ تا کہ ملک کی خدمت کا مقدس فریضہ انجام دے سکیں۔ اور قومی ترقی کے مختلف دھاروں میں اپنی صلاحیتوں کو پوری طرح بروئے کار لا سکیں۔