مجید نظامی صاحبؒ معمار پاکستان

محترم مجید نظامی صحافتی دنیا کا قابل فخر نام تھے وطن سے محبت ان کی شخصیت کا خاصہ تھی وہ 13اپریل 1928کو سانگلہ ہل میں پیدا ہوئے ان کی وطن کے لیے نظریاتی خدمات پر انہیں نشان امتیاز، ستارہ امتیاز، ستارہ پاکستان سے نوازا گیا ۔ مجید نظامی چیئرمین نظریہ پاکستان ٹرسٹ تھے ۔ ساری زندی شعبہ صحافت کی خدمت  کی  وطن سے محبت اوڑنا بچھونا رہا۔ویسے تو ہر قوم کے لوگ اپنے وطن سے محبت کرتے ہیں اور اس کے لیے تن من دھن کی قربانی سے دریغ نہیں کرتے اسی طرح  تاریخ بھی ان انسانوں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے دین اسلام کی سربلندی کے لیے قربانیاں دیں ایک وقت تھا کہ اسلامی مملکت کی سرحدیں قیصر و کسریٰ تک وسیع تھیں پھر اسلامی حکومتیں چھوٹی بڑی ریاستوں میں تقسیم ہوتی گئیں کئی مسلم ممالک سکڑنے لگے جبکہ انگریرزوں کے جانے کے بعد پاک ہند کی کی تقسیم کے نتیجے میں وطن پاکستان وجود میں آیا ایسے میں ہندووں و دیگر شر پسند عناصر کی مسلم دشمن سرگرمیوں کو بے نقاب کرنے اور منفی پراپگینڈے کے روکنے کے لیے اور مسلمانوں کو اصل حقائق سے روشناس
 کرنے کے لیے علامہ شبلی،مولانا محمد علی آزاد،  الطاف حسین حالی، مولانا محمد علی جوہر، شوکت علی جوہر، ظفر علی خان ( زمیندار )  اوردیگر شخصیات نے اپنا کردار ادا کیا ۔ قائد اعظم محمد علی جناح کی کوششوں سے علامہ اقبال کے خوابوں کی تعبیر ہوئی،14اگست 1947کو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد جن  شخصیات نے اسلامی نظریہ اور نظریاتی سیاست کو زندہ رکھا ان میں  حمید نظامی  اور'' نوائے وقت'' سرفہرست ہے، حمید نظامی اور مجید نظامی جنہیں بابائے صحافت کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔مجید نظامی نے پوری زندگی اسلامی نظریات کا پرچار کیاوطن سے محبت میں شہکار  اداریہ لکھیں اور عوام کو دوست و دشمن میں پہچان کراتے ہوئے انہیں حقائق سے آگاہ کیا اور کسی بھی واقعہ ،صورتحال سے متعلق سچ کو سامنے لائے یہی وجہ تھی کہ نوائے وقت کے قارئین کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہوا اور اب بھی لوگ سچ اور مستند خبر کے لیے نوائے وقت کو پڑھنا پسند کرتے ہوئے قارئین کو یہ اعتماد و اعتبار مجید نظامی صاحب نے دیا ہے یہی وجہ ہے کہ ان کے بعد بھی لوگوں کا نوائے وقت پر اعتماد بحال ہے وہ اسے پڑھنا پسند کرتے ہیں۔ نظامی صاحب  نے لکھا جو مستقبل میں پانی کی کمی اور پانی پر انڈیا کے قبضے کے حوالے سے تھا عوام میں بہت مشہور ا جہاں ان کی عقابی نظریں بین الاقوامی حالات و اقعات پر تھیں وہاں وہ پاکستان کی بقا، معیشت اورسیاست پر بھی گہری نظر رکھتے تھے ، وقت کے ساتھ ساتھ پیدا ہونے والے تغیرات ،عوامل کا ادارک رکھتے تھے وہ جانتے تھے کہ اگر پاکستان نے وقت کے ساتھ ساتھ خود کو تبدیل نہ کیا ، جدید ٹیکنالوجی کو نہ اپنایا ، ملک معیشت کو مضبوط نہ کیا تو وقت کی دوڑ میں ہم دیگر ترقی یافتہ ممالک کے مقابلے میں بہت پچھے رہ جائیں گے ۔ ترقی کرنا ہر ملک کا حق ہے کمزور ممالک کبھی اپنی اہمیت اور بات کونہیں منوا سکتے ، دنیا کی طاقت ور طاقتیں پاکستان کو ہڑپ کرجائیں گی ، ایسے ہی خطرات سے نظامی صاحب  قوم کو آگاہ کرتے رہتے تھے اور عوام کے سامنے سچ پیش کرنے کوشش میں لگے رہتے وہ انسان دوست ، ہمدر شخصیت کے مالک تھے ان کی وجہ سے کئی خاندانوں کے گھر کا چولہا جلتا رہا ، کئی لوگوں کا وظیفہ چلتا رہا ۔ جب بھی پاکستان پر کوئی برا وقت آیا کوئی آزمائش آئی انہوں نے  درست تشریح پیش کرکے قوم کی رہنمائی کی اورلوگ جو ان کی شخصیت سے واقف تھے ان کی تحریریں پڑھتے تھے وہ ان سے بہت کرتے تھے اور کرتے ہیں انہوں نے پاکستان کی عوام کو وطن سے محب کا شعور دیا ان کی ہرتحریر وطن سے محب کی عکاس ہے ۔ یہ چمک دارستارہ 26جولائی کو اس دنیا سے رخصت ہوا ان کے بعد سے ان کی بیٹی رمیزہ مجید نظامی اپنے والد کے نقش قدم پر چل کر صحافتی خدمات سرانجام دے رہی ہیں۔

ای پیپر دی نیشن