بلوچستان میں بارشیں زحمت بن گئیں

Jul 29, 2022

بلوچستان میں حالیہ مون سون کی بارشوں نے تباہی مچادی ایک سو سے زیادہ قیمتی جانیں ضائع ہوگئیں ہیں ہزاروں مکانات مندہم ہوگئے ہیں فصلیں باغات بری طرح سے متاثر درجنوں شہروں اور دیہات کا رابطہ کٹ کے رہ گیا ہے اشیاء خوردونوش کی کئی علاقوں میں قلت کی اطلاعات ہیں۔ اکثر روڈ اور پلیں ریت کی دیوار ثابت ہوگئے ہیں ایک مہینے سے لوگ  شدیدپریشانی کے عالم میں ہیں اس وقت پورے بلوچستان میں سیرابی صورت حال بنی ہوئی ہے چاہے پہاڑی علاقے ہو ںیا میدانی، ہر جگہ یہی صورت حال ہے۔ نصف درجن سے زیادہ بلوچستان میں ڈیموں کو نقصان پہنچا ہے۔اس قدر گمبھیر حالات کے باوجود،گورنمنٹ کے تو کانوں پر جو ںتک نہیں رینگی اور نا ہی میڈیا نے اس طرف اپنی توجہ کی۔ محکمہ موسمیات کی جانب سے کئی روز پہلے بارشوں کی الرٹ جاری کرنے اور ان کی شدت کے بارے میں آگاہی کے باوجود بلوچستان حکومت کی جانب سے حفاظتی اقدامات نہ کرنا۔اور صرف این ڈی ایم اے۔اور صرف  اے سی اور ڈی سی ہی پر اکتفا کرکے صوبائی حکومت اور اس کی کابینہ کا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر صرف پنجاب اور مرکزمیں حکومت سازی کا کھیل دیکھنے میں مصروف رہنا بہت بڑی غفلت ہے۔اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ قدرتی آفات سیلاب زلزلے سونامی وغیرہ کو روکنا کسی کے بس میں نہیں ہے لیکن اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا لقب اس لئے دیا ہے کہ وہ اپنی فہم فراست کو استعمال کرکے ان کی شدت کو کم کر سکتے ہیں مثلا جب بارشوں کا الرٹ جاری کیا گیا تو این ڈی ایم اے کو چاہئے تھا کہ بارش کے گزرگاہوں کی صفائی کراکے نا جائز تجاوزات کو ختم کرکے ان نالوں آبی گزرگاہوں کو کلیر کرتے  ہوئے شاہروں کی خصوصی نگرانی کرکے پلوں کے پشتے مضبوط کرتے ڈیموں کی خاص نگرانی کرتے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ 
اس کی بہت ساری وجوہات ہیں ان کا ذکر پھر کبھی۔آج سے تیس پینتیس سال قبل جب ہم جھٹ پٹ (ڈیرہ اللہ یار سے کوئٹہ کی جانب جاتے تو ڈیرہ اللہ یار سے سبی تک میدانی علاقہ ہے اور زیادہ تر زمینیں ہموار ہیں لیکن اس کے باوجود۔ ڈیرہ اللہ یار سے سبی تک ریلوے ٹریک پر انگریز کے دور کی بنائی گئی ۔درجنوں پلیں دیکھ کر حیران ہوتا تھا کہ اس میدانی علاقہ میں اتنے پلوں کی کیا ضرورت ہے 
لیکن یہ بات بہت دیر کے بعد مجھ جیسے کم علم کے سمجھ میں آئی ہے کہ وہ کس طرح پانی کو محفوظ راستہ دے کر سیلاب کی تباہ کاریوں سے علاقوں کو بچاتے آئے ہیں۔ان کی بصیرت کو دیکھ کر ایک بار ان کو سلام کرنے کو دل کرتا ہے اورساتھ ہی ان کی سچائی اور ایمانداری کو بھی سلام ہے تقریبا ڈیڈھ صد ی ہونے کو ہے ان کی تعمیر کردہ پلیں اور گزرگاہیں اسی شان و شوکت سے قائم ہیں بشرط کے ان کے ساتھ چھیڑ خانی نہ کی ہو ان کے سامنے کوئی روکاوٹ کھڑی نہ کردی گئی ہو۔یہ تو تھے پرائے لوگ۔اب ہم اپنوں کی جانب آتے ہیں ہماری بنائی گئی پلیں سڑکیں یہاں تک کہ ڈیم بھی ریت کی دیواریں آخر کیوں ثابت ہورہی ہیں جس کی وجہ سب کو معلوم ہے کرپشن کرپشن بس کرپشن۔کوئی بھی ترقیاتی کام شروع کرنے سے پہلے ہی منتخب نمائندے اور سرکاری اہلکار یہ طے کرتے ہیں اس کام کا کمیشن کتنا ہمیں ملے گا کس طرح سے چار پیسے بچائے جائیں۔پھراس چکر میں کام کا بیڑہ غرق کردیا جاتا ہے اس طرح کام کا آغاز اس اندازمیں کیا جاتا ہے کہ کام کی تکمیل بس کسی صورت ویڈیو اور تصاویر بن جائیں پھر وہ جو ہو سو ہو ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں ہے۔دیکھا جائے تو یہ ڈیم یہ پلیں سڑکیں کروڑ دوکروڑ کی نہیں ہوتی ہیں ان کی تعمیر پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں۔اور خطیر رقم مصرف کے باوجود فائدے کے بجائے نقصان کا ہو ہو نا۔اتنا بڑاجانی مالی نقصان کی وجہ صرف اور صرف سزا جزا کا نہ ہونا ہے دنیا مثالوں سے بھری پڑی ہے  کہ فلا ں ملک میں ناقص پل تعمیر کرنے والے انجینئر اور ٹھیکیدار کو سزا دی گئی یہاں تک کہ سزائے موت تک دی گئی جس کا نتیجہ آج یہ نکلا کہ ان ممالک میں کئی سالوں سے کوئی ناقص تعمیرات نہیں ہوئی ہے۔ اگر ہمارے یہاں بھی چائنا۔کوریا۔جرمنی۔فرانس کی طرح ہمارے ملک میں بھی زیادہ نہیں تو کم ازکم کروڑوں اربوں روپوں کی لاگت سے تعمیر ہونے والے ڈیموں پلوں فلائی اورز جیسے اہم تعمیرات میں غیر معیاری مٹریل کا استعمال ناقص تعمیر پر ٹھیکیدار سمیت انجینئر اور ڈیپارٹمنٹ کے سیکریٹری سمیت وزیر تک کو سخت سے سخت سزا دے کر پاکستان کے غریب عوام کی مال اور جان دونوں بچائی جاسکتی ہے ۔واضع رہے بلوچستان کئی سالوں سے خشک شالی کا شکار ہے اس سال بارشیں شروع ہوئی تو بلوچستان کے باسیوں کے چہرے کھل اٹھے تھے لیکن یہ بارش ہمارے لئے رحمت کی بجائے زحمت بن گئی ہے کروڑوں کیوسک پانی نا صرف ضائع ہوگیابلکہ اس پانی نے تباہی مچادی ہے اسی سے نوے فیصد پانی ضائع ہوگیا اگر مضبوط ڈیم بنے ہوتے اور جابجا ڈیلے ڈیم بنائے جاتے تو بلوچستان کے لوگوں کو نقصان کے بجائے اربوں روپے کی آمدن ہوتی۔لیکن اس طرح کے کام کون کرے موجودہ سیاستدانوں اور بیوروکریٹ سے تو کوئی امید نہیں ہے۔بس اس کیلئے انقلاب کی ضرورت ہے اور یہ انقلاب لانے والے ابھی تک زندہ باد مردہ باد کے نعرے لگانے میں مصروف ہیں۔

مزیدخبریں