مقام بندگی دیگر مقام عاشقی دیگر
زنوری سجدہ می خواہی زخاکی بیش ازاں خواہی
چناں خودرانگہ داری کہ باایں بے نیازی ہا
شہادت بر وجودِ خود زخون دوستاں خواہی
محرم الحرام ہر سال آتا ہے صدیوں سے یہ مہینہ کیلنڈر میں موجود ہے اپنے وقت پر شروع ہو جاتا ہے اور پھر ختم بھی ہوجاتاہے۔ یہ سلسلہ صدیوں سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گا۔ حرمت والے چار مہینوں میں محرم بھی شامل ہے دس محرم کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے اور یہ سلسلہ ان سے پہلے والی اْمتوں میں بھی تھا۔ اس لیے فرمایا کہ آئندہ سال اگر زندگی ہوگی تو دس محرم کے ساتھ ایک روزہ مزید رکھوں گاتاکہ یہودیوں سے مشابہت نہ ہو۔ چنانچہ اب بھی بہت سے لوگ نویں، سویں یا دسویں گیارہویں کا روزہ رکھتے ہیں۔
روز و شب کا سلسلہ جاری تھا کہ تاریخ کے کینوس پر نواسۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم جگر گوشۂ بتول فرزنداسداللہ الغالب علی ابن ابی طالب امام حسینؓ نمایاں ہو کر نظر آئے۔ واقعہ کربلا کی ایک تاریخی حیثیت ہے اس کی ایک حیثیت یہ ہے کہ یہ ایک لوک داستان کی حیثیت سے بہت سے ملکوں اور معاشروں میں زندہ جاویدہوگئی ہے۔ عرب و عجم کے جس حصے میں اس داستان کو بیان کیا جاتاہے۔ اس حصے کے رسم و رواج داستان سرائی کے لیے اس میں شامل ہوجاتے ہیں۔ اس کا مقصد دردو الم اور ظلم وستم کی بدرجہ اتم تصویر کشی ہے۔ چنانچہ خود ہندوستان میں لکھنئو میں امام حسینؓ لکھنوی ہوجاتے ہیں اور پنجاب میں پنجابی ہوجاتے ہیں۔ علیٰ ھذا القیاس۔ افسوس اس بات کاہے کہ آہستہ آہستہ عاشورہ محرم میں ایک تہوار کا رنگ نمایاں ہوگیاہے۔
مرثیہ لکھا جائے مجلس پڑھی جائے ، جلوس نکالا جائے ، نیاز دلائی جائے ، کیا یہ کافی ہے اور کیا ان کاموں کے لیے امام عالیٰ مقام نے اپنے اہل و عیال اور قریبی ساتھیوں سمیت جام شہادت نوش فرمایا۔ یہ جنگ کوئی دو فوجوں کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ایک طرف ایک ریاست کی فوج تھی دوسری طرف چند مسافر تھے جن کو گھیر کر نہایت مظلومیت کے ساتھ شہید کیاگیااور بدخصلت ظالموں نے بچ جانے والی خواتین اور بچوں کے ساتھ بھی اچھا سلوک نہ کیا۔ یہ کون لوگ تھے۔ یہ امام ؓ کے ناناؐ کے اْمتی اور کلمہ گو مسلمان تھے مگر یہ چیز ان کو ظلم و بربریت سے نہ روک سکی۔ آخر وہ کیا مقصد تھا جس کے لیے حضرت امام حسینؓ اتنی عظیم قربانی دینے کے لیے تیار ہوئے۔
یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ وہ حصول اقتدار کے لیے نکلے تھے اور جن لوگوں پر انہوںنے بھروسہ کیا انہوں نے ان کو دھوکا دیا۔ تاریخ کی تعبیر کرتے وقت رطب دیا بس پر انحصار سے زیادہ ان شخصیات کی زندگی کو دیکھنا ضروری ہوتاہے جو کسی واقعہ میں بڑے کردار ہوتے ہیں۔ واقعہ کربلا میں حضرت امام حسینؓ اور یزید بن معاویہ دوبڑے فریق ہیں ان کی زندگی کا گہرا مطالعہ صحیح نتیجے پر پہنچنے میں بہت مدد گار ثابت ہوسکتاہے۔
شہادت حسین پر غور کرتے وقت اس بات کو کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ خلافت راشدہ کے پورے دور اور اس کے بعد حضرت امیر معاویہ کے زمانے تک بھی حضرت امام حسینؓ کا خاندان کبھی کشت وخون پر آمادہ نہیں ہوا اس لیے اس کو محض اقتدار کی جنگ سمجھنا سخت نا انصافی اور غلطی ہوگی۔ تو پھر کیا نئی بات سامنے آئی جس کے لیے امام حسینؓ کو کھڑے ہونا پڑا۔ یزید کا کردار ایک ضمنی بات ہوسکتی ہے مگر لوگ مرتد تو نہیں ہوگئے تھے۔ ارکان اسلام موجود تھے اور لوگ ان پر عمل پیرا بھی تھے۔ عدالتوں میں فیصلے اسلامی قانون کے مطابق ہی ہو رہے تھے۔ ان حالات میں ایک عام آدمی کے لیے تو شاید اس کا ادراک بھی ممکن نہ تھا کہ گاڑی راستہ بدل رہی ہے اور کچھ ہی دیر میں اس کی منزل ہی اور ہوجائے گی اور وہ بہرحال اسلام کی مطلوبہ منزل مقصود نہیں ہوگی۔ اس فرق کو امام عالی مقام جیسا صاحبِ نظرہی محسوس کرسکتاتھا۔
اسلام کا اصل نظام خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ وقت عام المسلمین کی رائے سے چْنا جاتاہے اس چنائو کے مختلف طریقے ہوسکتے ہیں مگر اس کی روح یہی ہے کہ جمہور مسلمانوں کی مرضی معلوم کی جائے۔ خلافت راشدہ میں یہ خصوصیت موجود تھی۔ خلیفہ اول کا نام حضرت عمرؓ نے تجویز کیا، وہ ان کے صلبی رشتہ دار نہیں تھے مگر اْن کی نظر میں اہل ترین فرد تھے اور یہی رائے جمہور مسلمانوں کی تھی۔ حضرت ابو بکر صدیقؓ نے حضرت عمرؓ کو نا مزد کیا تو وہ بھی اہلیت کی بنیاد پر ہی تھا چنانچہ اس کو شرف قبولیت حاصل ہوا۔ یوں یہ معاملہ بھی مسلمانوں کی مرضی او رمشورے کے مطابق ہوا، حضرت عمرؓ نے اپنے بعد ایک اور طریقہ اختیار کیا اور اس میں چھ نمایاں ترین اور اہل ترین افراد کو نامزد کیا کہ ان کے بارے میں رائے لے لی جائے اور جس کو اکثریت پسند کرے اس کو خلیفہ بنالیا جائے۔
اس طرح حضرت عثمان غنیؓ اور ان کے بعد حضرت علیؓ خلیفہ منتخب ہوئے۔ اس کے بعد حضرت امیرمعاویہؓ کی خلافت میں وہ بات نہ تھی مگر حضرت امام حسنؓ نے اْمت میں افتراق ختم کرنے کے لیے صلح کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کو سچ ثابت کیا جس میں انہوںنے امام حسنؓ کے بارے میں فرمایا تھا کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے اور اس کے ذریعے اللہ مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان جھگڑا ختم کرائے گا۔
حضرت امیر معاویہ کے بعد یزید کی نامزدگی اور اس کے لیے بیعت طلبی ایک ایسی بنیادی تبدیلی تھی جس سے اسلام کا نظام حکومت خلافت الٰہیہ کے بجائے شخصی حکومت میں تبدیل ہورہاتھا۔ اس تبدیلی کو اگر امام حسین جیسی زیرک و دانا شخصیت بھی ٹھنڈے پیٹوں قبول کرلیتی تو اسلامی حکومت کا تصور ہی ختم ہوجاتا۔ امام حسینؓ کی شہادت ایک نہ ختم ہونے والا معاملہ ہے اور ہر دور میں لوگوں نے اس علم کو بلند رکھا اور قربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کرتے رہے۔ یہ سلسلہ چلتے چلتے برصغیرمیں حضرت مجد د الف ثانی اور سید احمد شہید تک پہنچا اور بعد میں بھی مختلف شکلوں میںجاری رہا اور آج بھی جاری و ساری ہے۔ آج کی اسلامی تحریکیں، جہادی تحریکیں اسی مقصد کے لیے کوشاں ہیں۔
آج دنیا ئے اسلام میں احیائے اسلام کی تحریکیں کامیاب ہوتی نظر آتی ہیں تو یہ بھی حضرت امام حسینؓ کی قربانی کے ثمرات ہیں۔ انشاء اللہ پاکستان بھی ان کی برکات سے مشرف ہوگا اور یہاں بھی حق کا پھر یرا لہرائے گا۔آج کے دور میں امام حسینؓ کے راستے پر چلنے کے خواہش مند لوگوں یا ان کے نام لیوائوں کو یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ امام حسینؓ نے جس اعلیٰ مقصد کے لیے عظیم ترین قربانی پیش کی ان سب کو اسی طرح کی قربانی اسی مقصد کے لیے پیش کرنے کو تیار رہنا چاہیے۔ اگریہ کام ہوجائے تو دنیا میں اْمت مسلمہ ساری دنیا کی سردار ہوگی اور آخرت کی کامیابی تو بالکل طے شدہ امر ہے۔
غریب و سادہ رنگیں ہے داستان حرم
نہایت اس کی حسینؓ ابتداہے اسماعیلؓ