اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ+ این این آئی+ خبر نگار خصوصی+اپنے سٹاف رپورٹر سے) پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر مرکزی رہنما و وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نگران وزیراعظم کیلئے (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے 5 نام شارٹ لسٹ کر لئے۔ تمام افراد سیاستدان ہیں۔ اپنے ایک بیان میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ مجھے نگران وزیراعظم کے حوالے سے کوئی آفر نہیں ہوئی۔ (ن) لیگ اور پیپلزپارٹی نے مل کر 4‘ 5 نام فائنل کئے ہیں جو دوسری پارٹیوں سے بھی ڈسکس ہونگے۔ نگران وزیراعظم کا نام ایک ہفتے میں فائنل ہو جائے گا۔ حتمی فیصلہ اتحادی جماعتوں کی قیادت کرے گی۔ وفاقی وزیر دفاع نے کہا ہے کہ میرے خیال میں 90 دن میں الیکشن ہوں یہی ہمیں سوٹ بھی کرتا ہے۔ میری ذاتی رائے ہے الیکشن 90 دن سے بھی پہلے ہوں۔ میرے خیال میں اسمبلیاں دو دن پہلے تحلیل ہو جائیںگی۔ اسمبلی میں میدان خالی چھوڑا جاتا تو بہت مشکل ہوتی۔ لیگی رہنما کا مزید کہنا تھا کہ آصف زرداری سے متعلق اعتبار کا بیان میرا ذاتی تھا۔ اب بھی ان سے متعلق احتیاط کرتا ہوں۔ دوسری طرف وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ نگران حکومت کے حوالے سے کوئی ڈیڈ لاک نہیں ہے اور اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے 48 گھنٹے قبل اسے تحلیل کردیا جائے گا۔ وزیر داخلہ نے نجی ٹی وی کے پروگرام سے گفتگو کے دوران نگران حکومت کے حوالے سے کسی ڈیڈ لاک یا تاخیر کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ ہو چکا ہے کہ اسمبلی جس روز اپنی مدت پوری کر رہی ہے، اس سے 48 گھنٹے پہلے اسمبلی کو تحلیل کیا جائے گا تاکہ الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انتظامات کرنے کے لیے 60 کے بجائے 90 دن میسر ہوں اور اس میں کسی قسم کے ابہام کی ضرورت نہیں ہے۔ نگران وزیر اعظم کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے ایک نام آیا اور وہ مسترد ہو گیا۔ اسحق ڈار کا نام کسی نے پیش نہیں کیا، نہ مسلم لیگ (ن) نے یہ بات کی نہ ہی ہمارے کسی رہنما نے یہ بات کی، یہ افواہ ہو سکتی ہے جسے خبر بنا کر لیک کیا گیا، اس بات کی مسلم لیگ (ن) نے بھی تردید کی۔ انہوں نے کہا کہ اگر یہ فیصلہ ہوا کہ کوئی سیاستدان نگران وزیراعظم ہو سکتا ہے تو یقیناً وہ اسحق ڈار بھی ہو سکتے ہیں اور اسحق ڈار جیسا کسی اور جماعت کا کوئی سیاستدان بھی ہو سکتا ہے، اگر اس پر اتفاق رائے نہیں ہوتا تو کوئی سابق بیوروکریٹ یا سابق جج بھی ہو سکتا ہے، لیکن اس میں ایک بنیادی چیز ہے کہ وہ ایک ایسا آدمی ہونا چاہیے جس کی کوئی ساکھ ہو اور سب متفق ہوں کہ یہ شخص اہل ہے اور اپنی ذمے داری بہتر طریقے سے پورا کر سکتا ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ امن و امن کی صورتحال درست نہیں ہے، ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادارے پوری نیک نیتی اور بہادری سے دہشت گردوں کا پیچھا کر رہی ہیں۔ ریاست دہشت گردی کے ناسور کو کچلنے کی پوری کوشش کر رہی ہے اور اس میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلی حکومت میں یہ پالیسی اپنائی گئی اور کچھ لوگوں کو واپس آنے کی اجازت دی گئی اور یہ سمجھا گیا واپس آکر وہ ملک کے آئین اور قانون کی بالادستی کو تسلیم کریں گے لیکن وہ بات غلط ثابت ہوئی اور انہوں نے آکر وہی کام شروع کردیا جو وہ پہلے سے کرتے آرہے تھے۔ وزیر داخلہ نے کہا کہ یہ بات غلط فہمی پر مبنی ہے کہ نواز شریف کی سیاست میں بحالی کا اختیار حکومت کا تھا حالانکہ یہ اختیار حکومت کا نہیں تھا۔ میاں نواز شریف کو نااہل کیا گیا سب کہتے ہیں کہ یہ ایک جانبدار فیصلہ تھا۔ وہ چیف جسٹس خود بھی اس پر شرمسار ہے تو یہ ایک عدالتی فیصلہ ہے۔ اس جج نے بعد میں تسلیم کیا کہ اس نے دبا¶ میں آکر غلط سزا دی۔ لیکن عدالتی فیصلوں کے ختم ہونے کا ایک طریقہ کار ہے وہ طریقہ کار اپنایا گیا اور مریم نواز بری ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ میاں نواز شریف کا واپس آنا اور اس طریقہ کار کو اپنانا آئین اور قانون کا تقاضا ہے تو وہ جب بھی واپس آئیں گے تو اس طریقہ کار کو اپنایا جائے گا، وہ حفاظتی ضمانت لیں گے، عدالتوں میں پیش ہوں گے، ان کی اپیلوں پر سماعت ہوگی اور اس کے بعد وہ بری ہوں گے اور ان پر جو پابندیاں لگائی گئی ہیں اور جو عملی سیاست سے سازش کے تحت الگ کیا گیا ہے وہ ختم ہو جائیں گی۔ علاوہ ازیں یوم عاشو پر وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ خان نے اپنے پیغام میں کہا ہے کہ واقعہ کربلا ہمیں حق پر ڈٹ جانے کا سبق سکھاتا ہے۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں نے شجاعت کی داستان رقم کی۔ یومِ عاشور حق و باطل کے لازوال معرکے کی یاد دلاتا ہے ۔ حضرت امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے باطل کی اطاعت سے انکار کیا۔ امام حسین نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر کے دین اسلام کو جلا بخشی۔ رانا ثناءاللہ نے کہا کہ کربلا کے شہیدوں کی بدولت ہی اسلام آج زند ہے۔ واقعہ کربلا ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے۔
سیالکوٹ (نوائے وقت رپورٹ) وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ 2018ءمیں جب الیکشن ہوا تو ہم اکثریتی پارٹی تھے، ہم نے اس بات پر شور مچایا کہ اکثریت ہماری ہے حکومت پی ٹی آئی کی بنا دی۔ میرے ریمارکس اس تناظر میں تھے جو میں نے ٹی وی شو میں کہا۔ اس وقت جو ہمارے ساتھ زیادتی ہوئی اس کو درست کرنے کی ضرورت سمجھی گئی۔ جو حکومت توڑ جوڑ کر بنائی گئی شروع میں ہی اس میں خرابیاں پیدا ہو گئیں۔ نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے خواجہ آصف نے کہا کہ 2019ءمیں پنجاب حکومت ہمارے پاس آ سکتی تھی۔ آرمی چیف جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن پر ہم نے بلینک چیک دیا تھا۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر ہماری کوئی سودے بازی نہ تھی اور نہ کچھ مانگا تھا۔ آرمی چیف کی ایکسٹینشن پر لندن میں سینئر لیڈرشپ کا اجتماعی فیصلہ تھا۔ میاں صاحب کی واضح ہدایت تھی کہ ووٹ ضرور دیا جائے گا۔ ٹاک شو میں جو بات ہوئی وہ 2019ء والی بات ہوئی تھی جس پر واضح کیا انٹرویو میں تاریخ کی غلط فہمی ہوئی۔ تجویز میں کہا گیا بطور وزیراعظم آپ کا اور شاہد خاقان عباسی صاحب کا نام ہے۔ وزارت عظمیٰ کی پیشکش ہوئی تھی میں نے صاف انکار کر دیا، اس وقت قید میں تھا۔ پیشکش مسترد کر دی۔ پتا نہیں تجویز مالکان نے دی تھی یا نہیں؟۔ کہا گیا آپ کی لیڈرشپ کو ابھی انتظار کرنا پڑے گا۔ میں نے صاف انکار کر دیا۔ میں نے کہا اگر شاہد خاقان عباسی وزیراعظم بن جائیں تو مجھے اعتراض نہیں۔ ملاقاتی نے کہا آپ لکھ کر دیں۔ میں نے کہا آپ انگوٹھا لگوانا چاہتے ہیں تو لگوا لیں۔ شبر زیدی نے جو بات کی وہ درست ہے۔ ایک صاحب کو جانتا ہوں جس کا نام سجاد برکی ہے، وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے رشتے دار ہیں۔ سجاد برکی نے امریکہ میں تقریر کی آئی ایم ایف نے کیوں پروگرام میں توسیع دی۔ شبر زیدی والی بات بھی درست ہے۔ وہ چاہتے تھے کہ ملک ڈیفالٹ کر جائے۔ نہ وہاں بیٹھے لوگ مخلص ہیں نہ یہاں، یہ اقتدار کیلئے سب کچھ بیچنے کو تیار ہیں۔ یہ لوگ عام پاکستانیوں کو سیکنڈ کلاس تصور کرتے ہیں۔ حساب لگائیں دو تین روز میں کیا شور مچا جو میں نے تھوڑی سی گفتگو کر دی۔ اس بچی کیلئے خواتین کیوں شور نہیں مچا رہیں جو اس وقت تشدد سے ہسپتال میں پڑی ہے۔ خواتین کا احترام تو ہمارا مذہب سکھاتا ہے۔ مریم نواز، فریال بی بی سے متعلق جو زبان یہ لوگ استعمال کرتے رہے وہ بیان نہیں کر سکتا۔ خواجہ آصف نے کہا کہ جب سیاسی تعلقات خراب ہوتے ہیں تو مارشل لاءلگ جاتا ہے۔ پچھلے چند برسوں میں حالات سنبھل نہیں رہے تھے۔ مارشل لاءکا خطرہ رہا ہے۔ ملک کے باہر بھی معاشی طور پر ملک کا گلا گھونٹ رہے تھے، ملک کے اندر بھی 9 مئی کو ملکی سالمیت پر حملہ ہوا۔