مَیں پچھلے 20 سال سے ایک سخت مجبوری کی وجہ سے دیارِ غیر (یورپ) میں مقیم ہوں لیکن میری یہ مجبوری خسارے کا نہیں منافع کاسودا بنی رہی ہیاور اس کھرے منافع کی وجہ سے مَیں نے وطن سے دْوری کا دْکھ خوشی خوشی سہ لیا ہے۔ یہ خوشی گھومنے پھرنے یا سیر سپاٹے کی نہیں۔مَیں اپنی کھوجی عادت کی وجہ سے ایک مدت سے فکر وسوچ کی قید ِ بامشقت میں ہوں جس میں انسان اَور اْس سے وابستہ تمام معاملات کو ہاتھ سے چلنے والی پتھر کی چکی میں پستی رہتی ہوں اَور جو اناج اِس کے اردگرد جمع ہوجاتا ہے وہ مَیں اپنے قارئین کو ذہنی اور روحانی خوراک کے طور پر دے دیتی ہوں۔ میری اس مزدوری میں کسی قاری کے اچھے الفاظ ہی میری اْجرت ہوتے ہیں لیکن زیادہ خوشی اْس وقت ہوتی ہے جب میرا پروردگار میری اِس مزدوری کی اْجرت پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دیتا ہے اور وہ خوشی میری روحانی اور جسمانی صحت کی صورت میں ہوتی ہے مَیں حیرت انگیز طورپرتندرست ہوں کیونکہ مَیں نے قرآن حکیم سے بھی نسخہ کیمیاء حاصل کررکھا ہے۔بہرحال اگر ہم سب اس نسخہ کیمیاء کو قرآن حکیم سے حاصل کرنے کی تھوڑی سی مشقت کرلیں تو ہرلحاظ سے تندرست رہ سکتے ہیں ، یہ میری گارنٹی ہے۔ لیکن ہم نے قرآن حکیم کو صرف قرأت اور گناہ ثواب کمانے کی کہانی سمجھ رکھا ہے۔ہم نے اپنے تمام اعمال یعنی جھوٹ اور بے ایمانی کو زندگی کی کتاب میں پکی سیاہی سے لکھ کر بند کردیا ہے۔ گاڑی چلاتے ہوئے سامنے کھڑے سارجنٹ کے جرمانے عائد کرنے کے ڈر سے ٹریفک کی ہم خلاف ورزی نہیں کرتے لیکن سارجنٹ اعلیٰ جو پروردگار کی صورت میں سامنے نہیں ہے ، ہم بے خوف ہوکرزندگی کی ٹریفک کے سارے قانون قاعدے توڑتے ہوئے نکل جاتے ہیں لیکن یہ بھول جاتے ہیں کہ سارجنٹ اعلیٰ کاجرمانہ بھی بہت زیادہ ہوتا ہے جو وہ بیماری یا کسی بھی دْکھ کی صورت میں وصول کرلیتا ہے۔
بہرحال حیرانی اور دْکھ اِس بات کا ہے کہ غیر مسلم اس غیبی سارجنٹ کے اوجھل ہونے کے باوجود اْس کے قانون قاعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتے۔ اِ ن غیر مسلموں نے سچ ایمانداری راستی اور محنت کو اپنے وجودوں کے انجکشن لگارکھے ہیں ، جواْنہیں بیماری اور بے سکونی میں نہیں جانے دیتے۔ اسلام کے قانون ضابطے کی ساری وراثت اْنہوں نے بڑی پرکاری اور فنکاری سے ہم اْچک لی ہے اور ترقی کے عروج پر پہنچ گئے ہیں اور ہم مسلمانوں نے صرف مادی جائیدادوں کو سینے سے لگارکھا ہے اور اپنی جائیدادوں کو ہی اپنے سکون اور بقاء کی شرط بنا رکھا ہے۔ جب ایک مالکِ مکان گھر سے باہر سیر سپاٹے یا مگچھڑے اڑانے کے لیے گھر سے باہر جاتا ہے تو گھروالوں کی عدم موجودگی میں اگر کوئی ڈاکو اْس گھر پر ڈاکہ ڈال کر سب کچھ لوٹ لیتا ہے تو ڈاکو کیوں قصوار ٹھہرے۔ ہم اپنی وراثت کو چھوڑ کر گھر سے باہر نکل گئے تھے پھر غیر مسلم ڈاکوئوں نے اْنہیں لوٹ لیا۔ وہ اِس مال و متاع سے امیر ہوگئے اور وقار و آبرو کے تخت پر بیٹھ گئے اور ہم اْنکے غلام اور محتاج بن گئے۔ آج وہ غیر مسلم اْن سب میدانوں پر قابض ہوگئے ہیں جن پر ہمارے ماہرین کاقبضہ تھا ، ہر علم جو آج غیر مسلموں کے تسلط میں ہے وہ ہمارے ماہرین کی امانت تھا ،غیر مسلم اْن پر تھوڑی سی محنت کرنے کے بعد چاند پر جاپہنچے ہیں اور سائنس دان کہلائے۔ سائنس کا یہ سارا علم اور آگاہی مسلمانوں کی میراث تھی ، وہ خود بھی مانتے ہیں کہ مسلمان عالموں کے علم ہی سے ہم نے یہ سب کچھ حاصل کیا ہے ہمارے ریاضی دان ،کیمیا گر اور سپاہ گری کے ماہرین کواَب بھی وہ اپنا استاد مانتے ہیں۔ بہرحال اِ ن غیر مسلم صالحین کی کس کس کہانی کو دھرائوں۔
میرے اپارٹمنٹ کے نیچے کتوں کا بیوٹی پارلر ہے کھوجی طبیعت وہاں لے گئی کتوں کا (وہیں بیٹھا ) ایک ڈاکٹرطبی معائنہ کرتا ہے کہ اْسے کوئی ایسی بیماری تو نہیں کہ دوسرے کتوں کی ڈرسنگ کے وقت انہیں لگ جائے ،اگر ایسی بیماری ثابت ہو جائے تو کتے اور مالک کو فوراً باہر بھیج دیا جاتا ہے۔پارلر میں آئے ہر کتے کی جس طرح پیار سے پروسکینگ کی جا تی ہے جن خوشبودار شیمپو سے نہلایا جاتا ہے اور جن دودھیا تولیہ سے اْنہیں خشک کیا جاتا ہے ،ہمارے ہاں تو انسانوں کو ایسے اسباب مہیا نہیں ہوسکتے پھر مالک اپنے اپنے کتوں کو سینے سے لگائے پچکارتے ہوئے لے جاتے ہیں۔ کتوں کا ذکر میں نے اس لیے کیا ہے کہ یہ بتانا مقصود تھا کہ وہ لوگ انسان تو کیا جانوروں کا بھی خیال رکھتے ہیں اور اْن کے حقوق کو سمجھتے ہیں ہم ایک کتے کو نجس سمجھ کر جس طرح دھتکارتے ہیں وہ ٹھیک سہی لیکن اسلام نے ہر جگہ واضع کیا ہے کہ جانوروں کے ساتھ بھی اچھا سلوک کرو کہ بہرحال وہ جاندار ہیں۔ ایک دن واک کر رہی تھی سامنے سے 5-6 لڑکے اور لڑکیاں اپنے اپنے سفری بیگ گھسیٹتے ہوئے سامنے آگئیمَیں نے مسکرا کر ہیلو کہا تو وہ رْک گئے ، مَیں نے جرأت پکڑی اور پوچھا وہ اس وقت کہاں سے آرہے ہیں کہنے لگے ہم سب انجینئرز ہیں ، ہم ہر سال انڈیا جاتے ہیں وہاں کے گرو لوگوں سے ملتے ہیں وہ ہمیں Peace of Mindحاصل کرنے کے طریقے بتاتے جو صرف Maditationکے ذریعے ملتے ہیں ، ہم واپس آکر اس طریقہ کار کو پریکٹس کرتے ہیں اور سکون حاصل کرلیتے ہیں مَیں نے اْنکی باتیں سنیں اور انہیں بتایا کہ یہ لفظ Maditation ہمارے پیغمبر اسلام حضرت محمدﷺ سے منسوب ہے ، وہ ایک غار حرا میں مہینوں اور سالوں تک اس Maditation (مراقبہ) میں مصروف رہتے اور پھر خدا نے ایک کتاب جو مکمل ضابطہ ٔ حیات انسانی ہے اْنکے ہاتھ پر رکھ دی، یہ وہ کتاب ہے جس نے انسانی تاریخ میں انقلابِ عظیم برپا کر دیا۔
بہرحال بعد میں اْن نوجوانوں سے میری طویل ملاقاتیں رہیں ،مَیں یہ دعویٰ تو نہیں کرتی کہ مَیں نے اْن غیر مسلموں کو مسلمان کر دیا مگر اْن کو پْرسکون دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی۔ مَیں اپنے علمائے دین کی بہت عزت کرتی ہوں یہ حضرات سرکاری اور پرائیویٹ Visitsپر اِ ن ملکوں میں تشریف لاتے ہیں مگر پروٹوکول کے مزے اڑانے کے بعد واپس اْڑجاتے ہیں۔