لوگوں کو جینے دو

آج کل میرے ملک میں عوام کیلئے مشکل ترین دن ہیں۔ایک طرف جولائی کی تپتی دوپہریں ہیں۔دم گھٹتی فضائیں ہیں تو دوسری طرف سرکار کی طرف سے ہر دوسرے ہفتے بجلی کے نرخ بڑھائے جانے کے سبب لوگ گھروں میں اے سی کولر ایک طرف پنکھے تک بند کرنے پہ مجبور ہیں۔ایک طرف ٹیرف کے نام پر مہنگی بجلی مہیا کی جارہی ہے اسکے بعد ریڈنگ سے زائد یونٹ ڈال کے لاکھوں شہریوں کو پروٹیکٹڈ صارفین کو ان پروٹیکٹڈ کیٹیگری میں بھیجا جارہا ہے۔پاکستان میں بجلی کے بل اب موت کے پروانے بنتے جارہے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں شامل مختلف ناموں سے لگنے والے ٹیکس جنہیں اب لوگ بھتے کی پرچی یا جگا ٹیکس کہنے لگے ہیں اس پر بس نہیں ہوتی بلکہ ستم ظریفی ہے کہ اس سب کے بعد ہر دوسرے ہفتہ میں دوباربجلی کی قیمتوں میں بھی اضافہ کر دیاجاتاہے 17روپے والا بجلی کا یونٹ اب بڑھ کر 85 روپے ہوگیاہے۔بیس تیس ہزار ماہانہ کمانے والوں کو تیس چالیس ہزار بجلی کا بیجھا جانے لگا ہے۔گھروں کے سربراہ بجلی کے بڑھتے بلوں سے شدید دباو میں ہیں۔گھروں میں معصوم بچوں، بزرگوں اور خواتین سے پنکھے بند کرنے پر تند و تیز جملوں کے تبادلے ہورہے ہیں۔مشترکہ فیملی سسٹم میں بجلی کم زیاد ہ استعمال کرنے پر لڑائی جھگڑے عام ہوچکے ہیں، بھائی بھائی کا گلہ کاٹ رہاہے لوگ نہروں میں کود کر اور پلوں سے چھلانگیں لگا کر اپنی زندگیوں کا خاتمہ کر رہے ہیں۔ لوگ بجلی بل ادا کرنے کیلئے خواتین کے زیور،بچوں کی سائیکلیں، موٹر سائیکل اورگھر کافرنیچر بیچ رہے ہیں۔ بجلی کے بلوں میں جی ایس ٹی،ایکسٹرا،فردر ٹیکس، انکم ٹیکس،ایف پی اے، ایکسائز ڈیوٹی، کوارٹرلی ایف پی اے، فکسڈ چارجز،میٹر رینٹ،ٹی وی فیس،نیلم جہلم ڈیم سمیت مختلف ناموں سے ٹیکس پر ٹیکس شامل کیے جارہے ہیں۔بجلی بلوں میں شامل طرح طرح کے ٹیکسزچونکہ عام پاکستانیوں پر لاگو ہوتے ہیں اس لیے عدلیہ سمیت کوئی بھی محکمہ، ادارہ، فورم اس حوالے سے عوام کو ریلیف دینے کیلئے تیار نہیں اورنہ ہی اس بابت سوموٹو لیاجاتاہے۔اب ہر طرف سے آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں عوام پر اس ظلم پر برابر کی شریک ہیں۔ افسو س عوامی خدمت کے دعویدار عوامی خدمت کے نام پر ہی ان کا استحصال کررہے ہیں۔ طاقت اور اختیار رکھنے والا ہر دوسرابندہ اپنی مراعات حاصل کرنے میں پیش پیش ہے۔حکومتی ترجمان ہر مہنگائی،ہر ٹیکس کی ذمہ داری سابق حکومت پر لگانیکی کوشش کرتے ہیں۔حالانکہ حکومتی ایوان میں بیٹھے لوگ کسی نہ کسی صورت ہر حکومت کا حصہ بنے ہوتے ہیں۔بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث بہت سی انڈسٹریزبند ہوچکی ہیں ایف بی آرکی جانب سے متعارف کرائی گئی نام نہاد تاجردوست سکیم کو تاجرتنظیموں نے تاجردشمن قراردیتے ہوئے مستردکر دیاہے المیہ تو یہ ہے کہ سٹیک ہولڈرزسے مشاورت کیے بغیر بند کمروں میں بیٹھ کر پالیسیاں بنائی جاتی ہیں جس کا زمینی حقائق سے دوردورتک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا،بھلا ایئر کنڈیشنرکمروں میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھنے والے گرمیوں کی چلچلاتی دھوپ میں کام کرنے والے مزدورکی تکلیف کا احساس کیسے کرسکتے ہیں؟۔ اونچے محلات میں رہائش پذیراورشاہانہ لائف سٹائل رکھنے والوں کو کیا معلوم کہ چھوٹی سی کٹیا میں رہنے والے غریب کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے؟۔ کسی بڑی جماعت کی طرف سے آئی پی پیز کے خلاف اقدامات کرنے کی بات نہیں کی جارہی۔ حکمران اشرافیہ کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگ رہی کیونکہ وزیروں، مشیروں، ارکان اسمبلی، ججز، جرنیلوں اور سرکاری افسروں کوسرکاری رہائشوں کے ساتھ ساتھ فری بجلی، گیس،پٹرول اوردیگرسہولیات میسر ہیں۔ ظلم کی انتہا ہے کہ ایک طرف لوگ بجلی بلوں کو لے مر رہے ہیں تو دوسری طرف آئی پی پیز کو بغیر بجلی بنائے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں اربوں روپے اداکیے جارہے ہیں۔
ایک بات صاف ہے کہ اب ہر پاکستانی شہری کو سمجھ آرہی ہے کہ حکمران اپنے فائدے کیلئے ،اپنی کمیشن کیلئے ایک ہوجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی مہنگائی، پٹرول، ڈیزل،بجلی بلوں اور آئی پی پیز کے ساتھ کیے گئے انسانیت سوز معائدوں کے خاتمے کیلئے اسلام آباد دھرنا دینے کیلئے پہنچی ہوئی ہے۔حکومت اور جماعت کے عہدیداروں کے درمیان مزاکرات ہونے کی خبریں چل رہی ہیں۔اللہ کرے اقتدار کے مزے لوٹنے والے عام پاکستانیوں کے مسائل کوسمجھنے کی کوشش کریں اور ضد اور ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کے ریاست کی مضبوطی کیلئے فیصلے کرنے کی کوشش کریں۔لوگ اعلی عدالتوں میں بیٹھے منصفوں کی طرف دیکھ رہے ہیں کہ وہ کب سیاسی فیصلوں سے وقت نکال کے عوام کے ساتھ ہونے والی اس ڈیجیٹل واردات کا نوٹس لیتے ہیں۔اگر حکومت نے بجلی بلوں کی مد میں بہتر حکمت عملی کا مظاہرہ نہ کیا تو ان کے سب فلاحی منصوبے بیکار جائینگے۔لوگ جمہوریت اور جمہوری نظام سے متنفر ہوجائینگے۔مسلم لیگ کی پنجاب اور مرکز میں حکومت ہے۔اس پہلے کہ دیر ہوجائے میاں نواز شریف،مریم نواز اور شہباز شریف کو اپنے سیاسی مستقبل کے پیش نظر جلد اور بہتر اقدامات کرنے ہوں گے۔آئی پی پیز کو کیپیسٹی پیئمنٹ بند کروانا ہوگی۔بجلی کمپنیوں کی طرف سے آئے روز قیمتیں بڑھانے کے سلسلے کو بند کروانا ہوگا۔جن پر حکومت کرنی ہے جن کے ووٹ سے اقتدار نشیں ہوئے ہیں انہیں موت کے پروانوں کی صورت میں بجلی کے بل بھیجنے کا سلسلہ بند کروانا ہوگا۔بجلی بلوں پر سے تمام تر ٹیکسز ختم کرواکے کم سے کم یونٹ کا یکساں نظام لاگوکروانا ہوگا۔صنعت کاروں کو بجلی کم قیمت مہیا کرکے برآمدات میں اضافہ کرکے ملکی معیشت کے استحکام میں معاون بننا ہوگا۔گڈ جیسٹریعنی خود کو واقعی عوام کا خیر خواہ یا خادم ثابت کرنے کیلئے اپنے اخراجات کم سے کم کرنے ہوں گے۔عوام پر سے ناجائز ٹیکسوں کا بوجھ کم کرنے کیلئے وزیروں، مشیروں اور دوسرے سرکاری نوکروں کیلئے مختص فری بجلی،گیس،پٹرول اور گاڑیوں کی فراہمی کا سلسلہ روکنا ہوگا۔اگر حکومت اپنے اخراجات کم کردے تو پھر وہ سب کیلئے چاہے وہ کسی بھی عہدے پر فائز ہے اس حاصل خصوصی مراعات ختم کرسکتی ہے۔

ای پیپر دی نیشن