جاوید نامی نوجوان تقریباً آٹھ ماہ سے اسلام آباد کے ایک عام سے علاقے میں سرکاری کوارٹرز میں رہائش پذیر تھا۔یہ کوارٹرز کہوٹہ لیبارٹریز کی ملکیت تھے اور لیبارٹریز سے تھوڑے ہی فاصلے پر تعمیر کئے گئے تھے۔وہاں اور بھی بہت سے کلاس فور ملازمین رہائش پذیر تھے۔ انہی میں ایک جاوید نامی نوجوان بھی شامل تھا۔جاوید شکل وصورت سے اچھا سمارٹ اور پڑھا لکھا نوجوان لگتا تھا۔بات چیت میں بڑا ملائم اور مہذب تھا۔ سب ساتھی اُسے پسند کرتے تھے۔ اس کے مہذب روّیے اور ظاہری سمارٹ شخصیت کی وجہ سے وہ آفیسرز میں بھی ایک پاپولر نوجوان تھا۔ شروع میں یہ شخص جنرل ڈیوٹی ڈرائیور کے طور پر کہوٹہ لیبارٹریزمیں بھرتی ہوا لیکن بہت جلد ڈائریکٹر کی نظروں میں آگیا۔ڈائریکٹر صاحب نے اس کے رویے سے متاثر ہو کر اُسے اپنا ذاتی ڈرائیور مقرر کر دیا۔جاوید وقت پر دفتر آتا اور وقت پر چلا جاتا۔ دفتر کے چھوٹے موٹے کام بھی کر دیتا۔ڈائریکٹر کے ذاتی کاموں میں بھی چستی دکھاتا جس وجہ سے ڈائریکٹر اور اس کی فیملی بھی اُسے پسند کرنے لگے۔
پچھلے آٹھ ماہ سے اس کا معمول تھا کہ وہ دفتر سے سیدھا اپنے کوارٹر میں آتا اور شاذ و نادر ہی کوارٹر سے باہر نکلتا۔حتیٰ کے اپنا کھانا بھی باہر ہوٹل سے لے آتا۔ ارد گرد کے سب لوگ حیران ہوتے کہ یہ کیسا نوجوان ہے جو ہر وقت کوارٹر میں بند رہتا ہے یہاں تک کہ چھٹی والے دن بھی باہر نہیں نکلتا۔ اُسے ملنے بھی کوئی نہیں آتا تھا۔بہرحال یہ اُس کا ذاتی مسئلہ تھا اس لئے کسی کو اُس کی پرواہ نہ تھی۔سرکاری ڈیوٹی وہ مستعدی سے کر رہا تھا۔ ایک دن شام کو وہ جب دفتر سے چھٹی کر کے تیز تیز قدموں سے اپنے کوارٹر کی طرف آرہا تھا تو اس نے دیکھا کہ گلی کے موڑ پر ایک ملنگ قسم کا آدمی دو کتوں کیساتھ بیٹھا ہے۔کتے اُس کے دائیں بائیں اس کے بچوں کی طرح لیٹے ہوئے تھے۔اس شخص کے بال بکھرے ہوئے اور داڑھی مونچھیں بے ترتیبی سے بڑھی ہوئیں تھیں۔کپڑے میلے کچیلے اور جگہ جگہ سے پھٹے ہوئے ۔ظاہری شکل وصورت ایسی جیسے عرصہ دراز سے نہ نہایا ہو۔وہ مست بیٹھا تھا جیسے اُسے کسی کی پرواہ نہ ہو سوا اپنے کتوں کے اور نہ ہی کسی کو اُس کی پرواہ تھی۔
جاوید اس کے پاس آکر تھوڑی دیر کے لئے رک گیا۔ غور سے اس ملنگ کا جائزہ لیا لیکن ملنگ اپنی مستی میں بیٹھا رہا۔ اس نے جاوید کی طرف نظر اُٹھا کر دیکھنے کی زحمت ہی گوارہ نہ کی۔جاوید اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ کوئی مجذوب یا پاگل شخص ہے۔ تھوڑی دیرا ُسے دیکھ کر وہ آگے اپنے کوارٹر کی طرف چلا گیا۔ صبح کو جب وہ وہاں سے گزرا تو یہ پاگل اُسی طرح کتوں کو گود میں لئے ہوئے، سر جھکائے وہاں بیٹھا اُونگھ رہا تھا۔ پھر ایک دفعہ سرسری سا جائزہ لے کر وہ اپنے دفتر کی جانب چلا گیا۔شام کو جب وہ واپس آیا تو اُس نے دیکھا کہ پاگل شخص نزدیک ہی کوڑے کے ڈھیر سے کچھ تلاش کر رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر رک کر اس کی حرکات دیکھتا رہاکہ یہ کیا تلاش کر رہا ہے؟اُ سے کوڑے کے ڈھیر سے ایک روٹی کا ٹکڑا ملا جو اُٹھا کر اس نے کھانا شروع کر دیا۔ جاوید کو پتہ چلا کہ یہ شخص کوڑے سے روٹی تلاش کر کے کھاتا ہے۔جاوید کو رحم آیا اور اُس نے چند روپے اس پاگل کو دئیے کہ روٹی کھا لے۔اب جاوید نے اپنا معمول بنا لیا کہ وہ آتے ہوئے جہاں اپنا کھانا لے آتا ایک یا دو فالتو روٹیاں اس کے لئے بھی لے آتا جو وہ لے کر کھانا شروع کر دیتا۔ اگر روٹی نہ لاتاتو اُسے کچھ نقدی دے دیتا۔
دن گزرتے رہے اور جاوید اپنے معمول کے مطابق اس پاگل کی مدد کرتا رہا۔ کہوٹہ لیبارٹریز کے نزدیک ایک میڈیکل سٹور تھا جہاں جاوید کا ایک دوست بھی کام کرتا تھا۔ ایک شام میڈیکل سٹور سے اُس دوست کا فون آیا کہ’’ آپ کی دوائی آگئی ہے جلد از جلد لے لیں۔‘‘ جاوید نے اچھا کہہ کر فون بند کر دیا۔ آج اُس نے جلد ہی کھانا کھایا اور لیٹ گیا۔ سونے سے پہلے اُ س نے اپنے موبائل پر رات ایک بجے کا الارم لگا دیالیکن اُسے نیند نہ آئی اس نے سخت بے چینی محسوس کی اور بے چینی میں بھلا نیند کیسے آسکتی تھی۔ وہ رات کے ایک بجے اُٹھا ، ہاتھ منہ دھو کر تھرماس سے ایک کپ کافی کا نکالا ۔ کافی پی کر وہ اپنے آپ کو چست محسوس کرنے لگااور آنے والی ایڈونچر کے لئے اپنے آپ کو تیار کیا۔ پتلون کی جیب میں کچھ اہم چیزیں رکھیں۔ چابیوں کا ایک گچھا اُٹھایا اور اپنا کوارٹر بند کر کے باہر نکل آیا۔ رات اندھیری تھی گلی بالکل سنسان تھی جو اُس کے مقصد کے لئے بالکل منا سب تھی۔ راستے میں اُسکی نظر اُس پاگل پر پڑی جو اُسی طرح موسم کی پرواہ کئے بغیر سر نیچے کر کے اپنے حال میں مست بیٹھا تھا۔بہرحال ا س وقت اُس نے پاگل کو چھیڑنا مناسب نہ سمجھا ۔ چپکے سے اُس کے پاس سے گزر گیا۔جاوید کی منزل کہوٹہ لیبارٹریز تھی جہاں اس نے ڈائریکٹر صاحب کے دفتر میں جانا تھا۔ آدھے گھنٹے میں وہ اپنی منزل مقصود تک پہنچ گیا۔
لیبارٹڑیز کے گیٹ پرگارڈ اپنی رائفل لئے بہت ہوشیار کھڑا تھا۔سب گارڈز جاوید کو اچھی طرح جانتے تھے۔گارڈ نے پوچھا :’’ اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘ جاوید نے بتایاکہ:’’ڈائریکٹر صاحب نے فون کر کے ایک فائل مانگی ہے کیونکہ انہوں نے صبح سویرے پریذیڈنٹ کو ایک اہم بریفنگ دینی ہے۔‘‘ ساتھ ہی جاوید نے اپنی جیب سے ایک سپیشل چھوٹی سی گن نکالی جو سخت قسم کی نشہ آور دوا سے بھری تھی۔جاوید نے تیزی سے اس کے پاس سے گزر کر گن کا فائر کیا۔ یہ بے آواز تھی اُس کے سامنے ایک باریک سی سوئی لگی تھی۔ سوئی سیدھی گارڈ کی گردن پر جالگی اور سوئی لگتے ہی وہ بے ہوشی میں چلا گیا۔ اب اگلا کام روشنی کو بند کرنا تھا کیونکہ روشنی میں وہ کوئی کاروائی نہ کر سکتا تھا۔ جاوید نے گیٹ والا بلب اُتارا اُس کے اوپر ایک روپے کا سکہ رکھا اور بلب دوبارہ لگا دیا۔ جوں ہی اس نے بلب لگایا ساری لائٹ بھگ سے اُڑ گئی۔ جاوید کو پتہ تھا کہ لائٹ جانے کے ایک منٹ کے اند ر اند ر یوپی ایس کی لائٹ خود بہ خود جل اُٹھتی ہے۔ اُ سکے پاس محض ایک منٹ اندھیرے کا تھا۔ اس کا جو بھی پروگرام تھا اس نے تیزی سے اِسی ایک منٹ میں مکمل کرنا تھا۔ اس نے دوڑ لگائی اور سیدھا ڈائریکٹرکے دفتر کی طرف بھاگا ۔ اس کے پاس دوہری چابیاں تھیں۔ اس نے پہلے دفتر کھولا اور پھر وہ الماری کھولی جس میں ایک اہم فائل رکھی تھی جس پر لکھا تھا۔’’ٹاپ سیکرٹ‘‘ جاوید نے وہ فائل نکالی اس میں لیبارٹریز کا نقشہ ، ایٹمی پروجیکٹ کی پروگریس ، متعلقہ سائنس دانوں کے نام، میٹریل دینے والی فرمزاور بہت سے دیگر اہم ڈاکومنٹس موجود تھے۔ اس نے وہ فائل نکالی اور آرام سے تمام اہم ڈاکومنٹس کی اپنے موبائل میں فوٹو لی۔ فائل واپس رکھ کر الماری بند کی اور واپس مڑا۔
اتنی دیر میں یو۔پی۔ایس کی لائٹ جل اُٹھی۔ جاوید نے پھر وہی نسخہ استعمال کیا۔ بلب پر روپے کا سکہ رکھ کر جونہی بلب واپس لگایا تو یوپی ایس کی لائٹ بھی بھک سے اُڑ گئی۔وہ آرام سے واپس مڑا اور دل ہی دل میں بہت خوش ہوا کہ اتنا اہم کام بغیر کسی تکلیف اور پوچھ گچھ کے حل ہو گیا۔ واہ بھئی واہ! پاکستان کی سیکورٹی۔ یہ کام تو ’’را‘‘ کا ایک معمولی ملازم بھی کر سکتا تھا ۔ وہ دل ہی دل میں بہت ہنسا۔جونہی دروازے سے باہر نکلا تو دیکھا کہ پاگل سامنے کھڑا تھا۔ جاوید نے سوچا کہ یقینا یہ شخص بھوک سے تنگ آکر میرے پیچھے آیا ہے۔ اُس نے کچھ روپے نکالے اور پاگل کو دینے کی کوشش کی جو پاگل نے انکار کر دیا۔ جاوید نے سوچا کہ یہ شاید کم پیسوں کی وجہ سے نہیں لے رہا۔ اُ س نے مزید کچھ روپے نکال کر اُسے دئیے جو اُ سنے نیچے پھینک دئیے۔ اب جاوید نے پوچھاــ:’’کیا چاہئے؟‘‘ تو پاگل نے اس کے موبائل کی طرف اشارے کر کے کہاکہـ:’’یہ چاہئے۔ــ‘‘ اب جاوید کو احساس ہوا کہ اسکا راز پکڑا گیا ہے۔ اتنی دیر میں پاگل نے جھپٹ کر موبائل چھین لیا۔
اب جاوید نے پاگل سے کہا :’’ تم نے مجھے پہچان تو لیا ہے۔ میرا موبائل بھی چھین لیا ہے جس میں سب راز موجود ہیں۔ میں ’’را‘‘ کا ٹاپ موسٹ ایجنٹ ہوں۔میرا نام وہاں مسٹر 100%ہے۔ جو کام کسی سے نہیں ہوتا وہ مجھے دیا جاتا ہے اور میں 100%نتائج دیتا ہوں۔ اب مجھے یہ تو بتا دو تم کون ہوجس نے میرے جیسے مسٹر 100%کو بھی شکست دے دی ہے؟‘‘ پاگل نے جواب دیا:’’ میں پاکستان ہوں۔ اس دھرتی کا بیٹا اور اس دھرتی ماں کا محافظ۔مجھے پتہ ہے تمہارا اصل نام روّی ہے۔‘‘اتنا کہہ کر جاوید کے سر پر ایک زور دار چوٹ لگی جیسے کسی نے ہتھوڑا اُس کے سر پرمارا ہو۔یہ اس پاگل کا مکا تھا۔ جاوید اُدھر ہی گر گیا۔ پاگل نے گارڈ بلا کر اُسے باندھ دیا۔ صبح انکوائری شروع ہوئی تو را کی ساری گینگ پکڑی گئی جس میں کم وپیش 9آدمی تھے جو لیبارٹریز کے ارد گرد مختلف مقامات پر مختلف روپ میں کام کر رہے تھے۔جاتے ہوئے پاگل نے روی کو کہا:’’ اپنے باپوں کو را میں بتا دو کہ پاکستان سو نہیں رہا‘‘ WELL DONE!ُُٓٓپاکستان کے بیٹے۔