کچھ ذکر قاضی محمد عیسیٰ پر لکھی کتاب کا

یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی سہی۔ مان لی یہ بات۔ تو کیا ہے؟ ہم نے کونسا صدیوں زندہ رہنا ہے اب یہ ہماری نہیں آنے والی نسلوں کی دردے سر ہے۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ لاہور آئیں اور کسی کتابوں کی دکان میں جھانکیں نہیں۔ لوئر مال پر’سنگ میل‘ والوں کا کتب خانہ لاہور کے کتاب دوست زمانے کی یاددلاتا ہے۔ وہیں اک کتاب پر نظر ٹھہر گئی۔ سرورق پر لکھا پڑھا۔’’تحریک پاکستان کا روشن ستارہ۔ قاضی محمد عیسیٰ۔ حیات و خدمات‘‘۔ میں نے وہ کتاب اٹھالی۔ کتاب میرے ہاتھ میں دیکھ کر ساتھی دوست بولا۔ یہ قاضی محمد عیسیٰ ہیں، ہمارے چیف جسٹس کے والد۔ اچھی بات ہے کہ کسی باپ کا ہونہار بیٹا چیف جسٹس آف پاکستان بن جائے۔ لیکن مجھے تحریک پاکستان کے عظیم رہنما اور قائد اعظم کے با اعتماد ساتھی کا انکے بیٹے کے حوالے سے تعارف کچھ اچھا نہ لگا۔ مناسب ہوتا اگر یوں کہا جاتا۔ ہمارے چیف جسٹس قاضی محمد فائز عیسیٰ ان کے فرزند ارجمند ہیں۔ ہم پرانی وضع کے لوگ ہیں، ہمیں ایسا بہت کچھ اچھا نہیں لگتا۔ کتاب کے مصنف قیصر عباس صابر ملتان سے تعلق رکھنے والے ایک وکیل ہیں۔ شمالی علاقہ جات کے بارے انکے سفر نامے بڑے شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہوں نے ہماری تاریخ کے ایک اہم لیکن نظر انداز کئے گئے کر دار کو اجاگر کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ہے۔ ڈیڑھ سو صفحات پر مشتمل یہ کتاب اس موضوع پر مزید تحقیق کی جانب توجہ دلاتی ہے۔ 
بیرسٹر قاضی محمد عیسیٰ کے دادا قاضی جلال الدین قندھار میں قاضی کے منصب پر فائز تھے۔ اسی مناسبت سے ان کا خاندان قاضی کہلواتا ہے۔ انہیں برطانوی راج کے خلاف بغاوت کی پاداش میں ملک بدر کر دیا گیا۔ پھر یہ پشین میں آ، آباد ہوئے۔ قاضی محمد عیسیٰ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے پہلے بیرسٹر ہیں۔ ان کے بعد ان کے بیٹے قاضی فائز عیسیٰ نے بھی لنکنز اِن سے ہی بار ایٹ لاء کی ڈگری حاصل کی۔ قاضی محمد عیسیٰ 1939ء میں وطن واپس آئے اور وکالت کا ارادہ کیا۔ نواب آف پالن پور کی خواہش پر ممبئی چلے گئے۔ وہیں ان کی قائد اعظم سے ملاقات ہوئی۔ قائد اعظم نے ان سے پہلا سوال یہی پوچھا۔کیا بلوچستان میں مسلم لیگ قائم ہو گئی ہے؟ انہوں نے جواب دیا۔میں ابھی وکالت کی تعلیم مکمل کر کے آیا ہوں، مجھے کچھ خبر نہیں۔ وہ قائد اعظم کی شخصیت اور خیالات سے بے حد متاثر ہوئے اور خود کو مسلم لیگ کیلئے وقف کر دیا۔ بلوچستان واپس آکر انہوں نے مسلم لیگ کی بنیاد رکھی۔ انہیں بلوچستان مسلم لیگ کا پہلا صدر ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ قیام پاکستان میں ان کی انتھک محنت کا یہ عالم تھا کہ قرارداد پاکستان پیش ہونے کے سات سال کے عرصہ میں انہوں نے پاکستان کے قیام کی راہ ہموار کرنے کیلئے تین لاکھ میل کا سفر کیا۔ تقسیم ہندوستان کے وقت بلوچستان کے پاکستان سے الحاق میں انہوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم نے بحیثیت گورنر جنرل انہیں بلوچستان کیلئے اپنا مشیر مقرر کیا۔ پھرقائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی۔ قاضی فائز عیسیٰ اور ان کا خاندان بیشک اس پر فخر کر سکتے ہیں کہ پاکستان کی بنیادوں میں ان کے بڑوں کی خون اور ہڈیاں موجود ہیں۔ 
22مارچ سے 24مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں آل انڈیا مسلم لیگ کے زیر اہتمام تین روزہ سالانہ اجلاس کا انعقاد ہوا۔ اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم نے کی۔اگلے روز بنگال کے وزیر اعلیٰ مولوی فضل حق کی طرف سے ایک قرارداد پیش کی گئی جسے بعد میں قرارداد پاکستان کا نام دیا گیا۔ اس قرارداد کی تائید پنجاب سے مولانا ظفر علی خاں، یو پی سے چوہدری خلیق الزماں، سندھ سے سر عبداللہ ہارون، سرحد سے سردار اورنگزیب اور بلوچستان سے قاضی محمد عیسیٰ نے کی۔یا درہے کہ اس وقت قاضی محمد عیسیٰ کی عمر محض 26برس تھی۔ یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا۔اپریل 1941ء میں مدراس میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں قاضی محمد عیسیٰ کی تجویز پر قرارداد لاہور کو آئین میں شامل کر لیا گیا۔اس طرح مسلم لیگ نے تحریک پاکستان اور حصول آزادی کی جدو جہد کو اور تیز کر دیا۔قاضی محمد عیسیٰ کوکئی بار قائد اعظم کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا۔بریگیڈیئر این اے حسین قائد اعظم کے ADC رہے ہیں۔ ان سے پوچھا گیا، ان چند بندوں کے نام بتائیں جو قائد اعظم کے قریب تھے۔ انہوں نے چند نام بتائے۔ پھر کہنے لگے۔ قاضی محمد عیسیٰ قائد اعظم کے اتنے قریب تھے کہ انہیں قائد اعظم کا’’بلیو آئیڈ بوائے‘‘کہا جاتا تھا۔ ایف ڈی ہنسوٹیا قائد اعظم کے ساتھ سیکورٹی افسر رہے۔ اس سے پوچھا گیا زیارت اور کوئٹہ میں قائد اعظم  سے ملنے والے لوگ کون تھے؟ اور وہ زیادہ بھروسہ کس پر کرتے تھے؟ اس کا جواب یہی تھا کہ قائد اعظم قاضی محمد عیسیٰ سے مل کر زیادہ مطمئن ہوتے تھے۔ صوبہ سرحد میں ریفرنڈم کا فیصلہ ہواکہ پٹھان ہندوستان چاہتا ہے یا پاکستان؟ یہ تاریخ پاکستان کا ایک نازک موڑ تھا۔ ادھرصورتحال یہ تھی کہ مقامی مسلم لیگی قیادت ایک چھوٹے سے مسئلے کو عزت اور غیرت کا مسئلہ بنا کر جیلیں بھرنے پرتْلی ہوئی تھی۔ دس ہزار کارکن اور رہنما جیلوں میں پہنچ گئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس موقع پر عوامی دباؤ اس قدر زیادہ تھا کہ خان عبدالقیوم خان بھی کہہ کہلوا کر اپنی گرفتاری کی کوشش کرتے رہے۔ قائد اعظم کو خبر ہوئی تو انہوں نے تین رہنما معاملہ سلجھانے کیلئے صوبہ سرحد بھجوائے۔ ان تین رہنماؤں میں سردار نشتر اور نواب اسماعیل کیساتھ تیسرے قاضی محمد عیسیٰ تھے۔ 
آخر میں ایک واقعہ، اس میں قاضی محمد عیسیٰ کی وجاہت، جامہ زیبی اور حسن تکلم سب کچھ موجود ہے۔ 1941ء میں صوبائی مسلم لیگ ممبئی میں قاضی محمد عیسیٰ نے بڑی اثر انگیز تقریر کی۔ دوسری نشست شروع ہونے سے پہلے قائد اعظم نے انہیں اپنے پاس بلا کر کہا۔’’آج تمہیں پھر تقریر کرنا ہوگی‘‘۔ قاضی صاحب سٹپٹاکر بولے۔ ’’جناب میں نے جو کچھ کہنا تھا کہہ چکا۔اب کوئی نئی بات کہاں سے لاؤں‘‘۔اس پر قائد اعظم نے انکے سامنے ایک چٹ رکھ دی اور فرمایا۔’’یہ خواتین کی طرف سے آئی ہے۔ وہ پھر آپ کو سننا چاہتی ہیں۔ اب خواتین کی خاطر آپ کو کچھ کہنا چاہئے‘‘۔ قاضی صاحب نے پھر معذرت پیش کی۔ ’’سر میں کچھ نہ بول سکوں گا‘‘۔ اس پر قائد اعظم نے ہنستے ہوئے فرمایا۔’’بہت اچھا۔میں چٹ کے پیچھے لکھ کر اندر بھجوا دیتا ہوں کہ جنہیں قاضی صاحب کو سننے کا شوق ہے وہ مدراس آجائیں‘‘۔ واضح رہے کہ چند روز بعد مدراس میں آل انڈیا مسلم لیگ کا سالانہ اجلاس ہونے والا تھا جس میں مجلس عاملہ کا رکن ہونے کی وجہ سے قاضی صاحب کی شرکت لازمی تھی۔

ای پیپر دی نیشن