طاہر انجم کی پٹائی کرنے والی انیلہ عرف نیلی پری کی گرفتاری
بے شک جذباتی ہونا آگے بڑھنے کے لیے لازمی ہے مگر جذباتی ہونے کے ساتھ عقل مند ہونا بھی بے حد ضروری ہے۔ سیاست تو نام ہی ہے ایک دوسرے کی بات سننے کا وہ بھی جلی کٹی اچھی بُری۔ مگر اس میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا کہ آپ تو جو چاہیں کہیں دوسروں کو کہنے کا حق ہی نہ دیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں سیاست شخصیت پرستی کے اردگرد گھومتی ہے، لوگ اپنے اپنے سیاسی رہنماؤں کو بتوں کی طرح پوجتے ہیں۔ ان کے اردگرد مصنوعی تقدس کا ایسا جذباتی ہالہ بنا دیتے ہیں کہ گویا وہ ہی درست ہے باقی سب غلط ہے۔ یہاں سے ہی پھر ’کھچاکھچ تے ڈزا ڈز‘ والا مرحلہ شروع ہو جاتا ہے۔ جذباتی لوگوں کے ساتھ اچھے بھلے پڑھے لکھے بھی اس جذباتی رو میں بہہ جاتے ہیں اور اس کا نقصان گزشتہ روز کی طرح آئے روز ہمارے سامنے لڑائی مارکٹائی کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ گزشتہ دنوں جس طرح پی ٹی آئی کی جذباتی کارکن نیلم پری نے مال روڈ پر مسلم لیگ (ن) کے کارکن انجم کو دیگر کارکنوں کے ساتھ روک کر ان کی گاڑی پر حملہ کیا وہ واقعی کسی انگلش فلم کا سین لگتا ہے۔ موصوفہ نے جس طرح انھیں گریبان سے پکڑ کر ان کی خبر لی میڈیا پر گھر بیٹھے لوگ جو خبریں دیکھتے ہیں انھوں نے بھی دیکھا اور لطف اٹھایا۔ شکر ہے ان کے ہاتھ میں کوئی اسلحہ نہیں تھا ورنہ انھیں مکھو جٹی سے نوری نت بننے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔ نام دیکھیں نیلم پری ہے اور کام دیکھیں تو کیا نام دیا جائے۔ گزشتہ دنوں لیڈی پولیس نے انھیں گھر جا کر حراست میں لیا تو وہ سہمی ہوئی لگ رہی تھی۔ شاید اب اسے بھی اسیر جمہوریت قرار دے کر سیاسی جماعت میں عہدہ اور الیکشن میں ٹکٹ دیا جا سکتا ہے اس کارنامے پر۔
٭٭٭٭٭
خواجہ سراؤں کا بھتہ خوروں کے خلاف احتجاج
ویسے تو مظاہرے ہوتے رہتے ہیں مگر گزشتہ دنوں خواجہ سراؤں نے پولیس کرائم مافیا اور تشدد کرنے والوں کے خلاف نہیں خود اپنی ہی برادری کے بااثر غنڈہ خواجہ سراؤں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا وہ بھی لاہور میں کہ ان غریب خواجہ سراؤں سے نام نہاد لیڈر بنے۔ ان کی برادری کے بااثر خواجہ سرا زبردستی بھتہ وصول کرتے ہیں۔ ایسا نہ کرنے پر انھیں ہراساں کیا جاتا ہے۔ تشددکا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ہے نا عجیب بات۔ کہتے ہیں خواجہ سراؤں کی بددعا جلد لگتی ہے۔ اس مظاہرہ میں درجنوں خواجہ سرا جس طرح سینہ اور سر پیٹ کر تالیاں بجا کر کے ان بھتہ خور خواجہ سراؤں کو بددعائیں دے رہی تھیں۔ وہ دیکھتے ہیں کب اثر لاتی ہیں اور یہ غنڈہ خواجہ سرا جو بھتہ خوری میں ملوث ہیں کب جیل کی سلاخوں کے پیچھے نظر آتے ہیں مگر کیا کریں پولیس والوں کا خواجہ سراؤں کی گرفتاری کا تجربہ بھی خاصا برا ہے۔ جہاں بھی کسی خواجہ سرا کو غلط کام پر پکڑا جاتا ہے اس کے باقی ساتھیوں کا ٹولہ تھانے پر یوں حملہ آور ہوتا ہے جیسے چیلیں صدقے کے گوشت پر پھر اس کے بعد تھانہ یا وہ پولیس چوکی تہس نہس ہو جاتی ہے۔ یوں خواجہ سرا ا پنی طاقت کا مظاہرہ کر کے اپنے ساتھی یا ساتھیوں کو چھڑاکر یوں ناچتے گاتے ٹھمکے لگاتے فاتحانہ انداز میں واپس لوٹتے ہیں جس کی وجہ آج کل ان کی دھاک جمی ہوئی ہے۔ یوں اب ہی اور شی کے تصور سے آزاد جیسے تیسری جنس بھی کہتے ہیں اپنا وجود ہر جگہ منوا رہی ہے تو بھتہ خوری میں بھی آگے آ رہے ہیں۔
٭٭٭٭٭
ادارے نیوٹرل رہیں۔ عمر ایوب اسد قیصر کے بعد وزیر اعلی خیبر پختونخوا بھی بولنے لگے۔
علی امین گنڈا پور اجلاس میں کچھ اور جلسے ہیں کچھ بولتے ہیں ۔ ایسی زبان و لب لہجہ محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمن کو تو زیب دیتا ہے جو آج تک اپنے بڑوں کی قائد اعظم کے ہاتھوں ہزیمت کو نہیں بھولے اور پاکستان بن گیا۔ آج بلوچستان اور اس وقت کا صوبہ سرحد پاکستان کا حصہ ہیں۔ جے ایم سید اور ولی خان کے انتقال کے بعد تو اب یہی دو دل جلے رہ گئے ہیں جو شعلے اگل رہے ہیں۔ تاہم پینترا یہ بدلا ہے کہ اپنا زہریلا کھیل تحریک تحفظ آئین کے نام پر کھیل رہے ہیں کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے ، ادارے ہمارے کام میں مداخلت نہ کریں نیو ٹرل رہیں۔ مگر یہ جو پی ٹی آئی والے ہیں ان کو کیا ہوا یہ تو خود کو محب وطن کہتے نہیں تھکتے۔ اگرچہ ان کے بعض رہنما بھی ابھی تک پشتونستان کے سحر میں مبتلا ہیں اور افغان قومیت پر یقین رکھتے ہیں۔ اب کئی بڑے رہنما بھی اسی خبط میں مبتلا ہو کر نجانے کیسی کیسی باتیں کرنے لگے ہیں۔ شیرافضل کے بعد اب اسد قیصر اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے بھی منفی انداز پوری شد و مد سے اپنایا ہے اور عزم استحکام کی بھرپور مخالفت کرتے ہوئے امن کے نام پر عوام کو کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے صوبے میں دہشت گردوں کے خلاف کوئی آپریشن ہونے نہیں دیں گے۔ پہلے کہتے تھے ہماری پولیس کارروائی کرے گی۔ فوج نہ آئے۔ آج تک بھلا خیبر پختونخوا یا کسی صوبے کی پولیس دہشت گردی کے خاتمے میں اگر کامیاب ہوتی تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی فوج کو سرحدوں کی حفاظت کے ساتھ ان دہشت گرد دشمنوں کے خلاف میدان عمل نہ آنا پڑتا۔ منظور پشتین تحریک والے تو اپنے مظاہروں میں کھل کر کہتے ہیں کہ جو یہاں دو ٹانگوں پر آئے گا چار کاندھوں پر جائے گا۔ اس کے باوجود خیبر پختونخوا میں اس کے اور اس کے حامیوں کو مکمل آزادی ہے جو کہیں اور کرتے پھریں۔ ان علاقوں میں قومی پرچم کی جگہ افغان پرچم لہرا کر کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں اور صوبائی حکومت چپ کیوں ہے۔
٭٭٭٭٭
برازیل کے ساحل پر شارکوں میں کوکین کی بھاری مقدار کا انکشاف۔
خشکی پر تو نشئی انسانوں کو جہاز بن کر لینڈ کرتے اور کریش ہوتے تو دیکھا ہے مگر اب لگتا ہے زیر آب سمندری مخلوق بھی نشے کے سبب ٹائی ٹینک بن کر غرقاب ہوتے بھی نظر آئیں گے۔ بے شک جانوروں کے ذریعے منشیات اور اسلحہ کی سمگلنگ کا طریقہ بہت پرانا ہے مگر آج تک یہی دیکھا تھا کہ گدھے، گھوڑے، کبوتر، بندر ، کتے وغیرہ اس مکروہ دھندے میں استعمال ہوتے تھے۔ اب تو جدید دور میں ڈرون کی مدد سے ہمارے جیسے مقروض ملک میں بھی منشیات کی سپلائی کا ٹرینڈ بڑھ رہا ہے مگر جو کمال یورپی ممالک کو حاصل ہے اس تک پہنچنے میں ہمیں کافی وقت لگے گا۔ زندگی اور ترقی کے ہر میدان میں وہ ہم سے آگے ہیں بلکہ بہت آگے ہیں اب اسی منشیات کی سمگلنگ کو ہی دیکھ لیں۔ خشکی کے جانوروں کے بعد اب وہ سمندری مخلوق کو بھی منشیات کی سمگلنگ پر لگا چکے ہیں۔ خبروں کے مطابق اب مچھلیاں بھی اس دھندے میں ملوث ہو چکی ہیں۔ ہے نا قیامت کی نشانی۔ پہلے اطلاع تھی کہ جاسوسی کے لیے ڈولفن مچھلیوں کو ڈیوائس باندھ کر استعمال کیا جاتا ہے۔ اب دو ہاتھ آگے جا کر شارک مچھلیوں سے منشیات کی سمگلنگ شروع ہو چکی ہے۔ ماہرین کے مطابق، برازیل کے ساحل پر پائی جانے والی شارکوں کے گوشت اور جسم میں کوکین کی مقدار بہت زیادہ پائی گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ساحلی علاقوں کے آس پاس رہنے والے اور تفریحی کے لیے آنے والے منشیات استعمال کرنے کے بعد اس کا کچرا سمندر میں پھینک دیتے ہی ہیں جو یہ شارکیں نگل لیتی ہیں ، یوں ان میں بھی کوکین کی موجودگی پائی گئی ہے۔ وجہ بہرحال جو بھی ہو منشیات کا استعمال اب سمندری مخلوق کو بھی متاثر کر رہا ہے تو بڑی مچھلیوں کا حال یہ ہے بے چاری کمزور عام مچھلیاں کس حال میں ہوں گی۔ وہ تو معمولی مقدار میں بھی منشیات کے اثر سے آپس میں لڑتی جھگڑتی ہوں گی۔ لگتا ہے یہ جو شارک ساحلی علاقوں میں تفریحی منانے آنے والوں حملے کر رہی ہیں شاید وہ بھی اسی نشے کا اثر ہو۔
٭٭٭٭٭