روس کی سٹیل ملز کی بحالی کی پیشکش

روس نے پاکستان کو سٹیل ملز کی بحالی کے لیے مدد کی پیشکش کی ہے۔ کراچی کونسل آن فارن ریلیشن کی پاک روس تعلقات پرتقریب ہوئی جس میں روسی قونصل جنرل وکٹرووچ شریک ہوئے۔ اس موقع پر قونصل جنرل کا کہنا تھا کہ روس سٹیل ملز کی بحالی کے لیے مدد کرنے کو تیار ہے۔ حکومت اور انتظامیہ کی جانب سے سنجیدگی کی ضرورت ہے۔ پاکستان اور روس کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہے۔ دونوں ممالک میں ایک عرصہ تک کشیدگی بھی پائی جاتی رہی۔ اب تعلقات میں کافی بہتری آچکی ہے۔ وزیراعظم محمد شہباز شریف کی دو برسوں دو مرتبہ روسی صدر پیوٹن سے ملاقات ہو چکی ہے۔ یہ ملاقاتیں نہایت خوشگوار رہیں۔ پاکستان اور روس کے مابین ہونے والی تجارت میں توسیع پر اتفاق کیا گیا۔ روس کئی شعبوں میں پاکستان کے ساتھ تعاون رہا ہے اور مزید میں کرنے کے لیے تیار ہے۔ اسی سلسلے کی ایک کڑی سٹیل ملز کی بحالی بھی ہے۔ سٹیل ملز بوجوہ پاکستان کے لیے سفید ہاتھی بن چکی ہے۔ یہ کبھی منافع میں جانے والا بہترین ادا رہ ہوا کرتا تھا۔ پھر ڈوبتے ڈوبتے خسارے کی بدترین پستیوں میں جا گرا۔ ملک بھر میں پرائیویٹ سیکٹر میں چلنے والے سٹیل کے ادارے کامیابیوں کے ساتھ چل رہے ہیں لیکن بد انتظامیوں کے باعث یہ قومی ادارہ ملک اور قوم پر بوجھ بن گیا ہے۔ اب تک پانچ مرتبہ سٹیل مل کو پاؤں پر کھڑا کرنے کے لیے 58 ارب روپے کے بیل آؤٹ پیکجز دیے جا چکے ہیں۔ سٹیل ملز 18 ہزارسے زاید ایکڑ پر پھیلا ہوا بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ مشرف دور میں اونے پونے اس کی نجکاری کی گئی تھی۔ سپریم کورٹ نے یہ معاہدہ منسوخ کر دیا۔ وفاقی وزیر خزانہ اورنگزیب کی طرف سے حالیہ دنوں بیان دیا گیا کہ سٹیل ملز کی بحالی کا کوئی امکان نہیں، صرف اسکریپ میں بکے گی۔ اب جبکہ وزیر خزانہ کے بقول یہ سکریپ بن چکی ہے، اس کی بحالی کی پیشکش روس کی طرف سے بہت سوچ سمجھ کر اور حالات کا جائزہ لے کر ہی کی گئی ہے۔ اس پیشکش کو نعمت غیر مترقبہ سمجھ کر قبول کر لینا چاہیے۔ روس کی طرف سے پاکستان میں سٹیل مل لگانے کی پیشکش 1956ء میں کی گئی تھی جس پر ایوب خان کے دور میں میں پیشرفت ہوئی جبکہ اس کا قیام 1973ء میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران عمل میں آیا۔ اب روس کی طرف سے بحالی کی پیشکش کو بلا تاخیر قبول کرنے کی ضرورت ہے۔

ای پیپر دی نیشن