غاصب صہیونی ریاست اسرائیل کی جانب سے غزہ میں ظلم و بربریت کا سلسلہ جاری ہے اور اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی دہشت گردی کی ایک تازہ کارروائی میں ایک سکول پر حملہ کر کے تیس بچے شہید کر دیے گئے ہیں۔ ادھر، خان یونس اور غزہ میں صیہونی حملوں میں 47 فلسطینی شہید ہو گئے۔ 103 فلسطینی زخمی، شہداء میں 15 بچے، 8 خواتین شامل ہیں۔ علاوہ ازیں، غزہ میں دیر البلاح کے مرکزی قصبے کو نشانہ بنایا گیا۔ اقوام متحدہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ 4 روز میں ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں۔ اس حوالے سے امریکی صدر جوبائیڈن نے اردن کے شاہ عبداللہ کے ساتھ فون پر بات کرکے جنگ بندی کے لیے دباؤ کی حکمت عملی پر تبادلۂ خیال کیا۔ امریکی صدر اپنے اس اقدام سے دنیا کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ وہ غزہ میں جاری بربریت کو روکنے کی خواہش رکھتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ناجائز اسرائیلی ریاست کی طرف سے فلسطینیوں پر پون صدی سے زائد عرصے سے جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں ان کے لیے امریکا بھی اتنا ہی ذمہ دار ہے جتنا کہ اسرائیل۔
امریکی اور یورپی عوام بہرطور اپنی حکومتوں سے مختلف نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کا اظہار امریکا اور یورپ میں ہونے والے بڑے بڑے احتجاجی مظاہروں میں بھی ہورہا ہے۔ ادھر، غزہ کے ہسپتالوں میں رضاکارانہ خدمات انجام دینے والے امریکی ڈاکٹروں اور نرسوں نے وائٹ ہاؤس کو خط لکھ کر غزہ میں فوری جنگ بندی اور اسلحے کی فراہمی پر پابندی کا مطالبہ کیا ہے۔ 45 امریکی ڈاکٹرز اور نرسوں کے گروپ نے صدر جوبائیڈن اور نائب صدرکملا ہیرس کو خط لکھا جس میں کہا گیا ہے کہ ہم نے غزہ میں جو دیکھا اس پر ہم خاموش نہیں رہ سکتے۔ غزہ میں بچوں کو جان بوجھ کر زخمی کیا گیا، ہم میں سے ہر ایک نے روز ایسے بچوں کا علاج کیا جنھیں سر اور سینے میں گولی ماری گئی۔خط میں مزید کہا گیا کہ چاہتے ہیں آپ وہ ڈراؤنے خواب دیکھیں جو ہمیں واپس آنے کے بعد پریشان کر رہے ہیں۔ خواب میں زخمی بچوں کی بے قرار مائیں ہم سے ان کی جان بچانے کی منت کرتی ہیں۔ آپ وہ چیخیں سن سکیں جو ہمارا ضمیر ہمیں بھولنے نہیں دیتا۔
بین الاقوامی سطح پر غزہ کے مظلوم عوام کے ساتھ یکجہتی کے اظہار کا جو سلسلہ جاری ہے اسی حوالے سے پیرس اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں جیسے ہی اسرائیل کا دستہ منظرعام پر آیا تو لوگوں نے فلسطین، فلسطین کے نعرے بلند کردیے۔ تقریب تاریخی دریائے سین میں منعقد کی گئی جہاں 6 کلومیٹر پر محیط انتظامات میں تمام ملکوں کے دستے ایک ایک کر کے کشتیوں پر گزرتے رہے۔ اسرائیل کے دستے کے سامنے آتے ہی شائقین نے ’فلسطین، فلسطین‘ کے نعرے لگائے اور اسرائیل کے دستے کے جانے تک وہاں یہ نعرے گونجتے رہے۔اس سے قبل جب فلسطین کے دستے پر مشتمل ٹیم منظرعام پر آئی تو شائقین کی جانب سے ان کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے بے پناہ نعرے بازی کی گئی۔فلسطینی دستے میں موجود مرد و خواتین اتھلیٹس نے فلسطینی رومال لپیٹے ہوئے تھے۔
اسی طرح، غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کے بارے میں بات کرتے ہوئے وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ فلسطین میں انسانی المیہ جنم لے چکا ہے۔ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔ خان یونس میں جاری اسرائیلی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں کی شدید مذمت اور گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ خان یونس میں اسرائیل کی بربریت کے باعث ڈیڑھ لاکھ سے زائد فلسطینی بے گھر ہوئے ہیں، خان یونس کے محاصرے سے علاقے میں اشیائے خورونوش اور دیگر ضروریات زندگی کی فراہمی معطل ہو کر رہ گئی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی فورسز فلسطینیوں کی نسل کشی کے سنگین جرم کا ارتکاب کر رہی ہے۔ پاکستان نے عالمی عدالت انصاف میں اپنے بیان میں فلسطینیوں کے حق خودارادیت اور اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے مظالم پر بھرپور آواز اٹھائی، ہم یہ مطالبہ دہراتے ہیں کہ عالمی عدالتی انصاف کے فلسطین کی صورتحال کے حوالے سے حالیہ فیصلے اور اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل درآمد کرایا جائے۔
پاکستان سمیت تمام مسلم ممالک کے حکمرانوں کی طرف سے بیانات تو بہت سے سامنے آئے ہیں لیکن یہ ایک افسوس ناک اور تکلیف دہ حقیقت ہے کہ اس سلسلے میں کسی بھی مسلم ملک کی طرف سے کوئی ٹھوس عملی اقدام نہیں کیا گیا جس کی وجہ سے اسرائیل کی جانب سے مظالم کا سلسلہ تھمنے میں ہی نہیں آرہا۔ دوسری جانب، امریکا، بھارت اور برطانیہ سمیت بہت سے ممالک نے اسلحے کے ذریعے غاصب صہیونی ریاست کے ہاتھ مضبوط کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اقوامِ متحدہ اور سلامتی کونسل کے پلیٹ فارمز پر اسرائیل نامی ناجائز ریاست کو ہر طرح کی سفارتی مدد سے فراہم کی گئی۔ بین الاقوامی برادری غزہ کے مسئلے پر پوری طرح ننگی ہوچکی ہے اور انسانی حقوق کے تمام دعوؤں کی حقیقت بھی سب پر عیاں ہوچکی ہے۔ اگر مسلم ممالک چاہیں تو وہ ٹھوس اقدامات کے صرف اعلان کے ذریعے ہی غزہ میں جاری اسرائیلی دہشت گردی کو فوری طور پر رکوا سکتے ہیں لیکن اس کے لیے پہلے انھیں امریکا کے خوف سے نکلنا ہوگا۔