ملتان کے اسکالرز کا عزم نو ملتان علمی ادبی مذہبی معاشرتی تاریخی ثقافتی اور معاشی اعتبار سے نہ صرف پوری دنیا میں اپنی پہچان رکھتا ہے بلکہ جنوبی پنجاب کے خطے میں اس کی ایک خاص شناخت ہے اور ملتان ایک مرکز کی حیثیت سے قومی دھارے میں بھی خاصا نمایاں رہتا ہے یہاں کی شخصیات اور یہاں کی سوغاتیں بہت مشہور ہیں یہاں کی سرائیکی میٹھی بولی اور خواجہ فرید کی کافی کے ساتھ ساتھ میٹھے آموں کی خوشبو اور لذت محبت کی شناسائی کی طرح کو بکو پھیل رہی ہے ملتانی سوہن حلوہ بھی اپنی مثال آپ ہے یہاں بہت سی نابغہ روزگار شخصیات موجود ہیں اور رفتگان میں بھی ایسی شخصیات رہی ہیں جنہوں نے ملتان کی دنیا بھر میں شناخت بنانے میں اپنا اہم کردار ادا کیا ہے ملتان کے ادیب شاعر اساتذہ دانشور اپنی فکر و سوچ کے ساتھ یہاں پہ علم و فکر اور فنوں ہنر کے نئے نئے جہان اباد کیے ہوئے ہیں ایسے ہی تشنگان علم دانشوروں اور سکالرز نے ملتان میں ایک اسکالرز کلب کی بنیاد رکھی ہے جس کے روح رواں نشتر میڈیکل کالج اور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور معروف معالج جناب ڈاکٹر اعجاز مسعود ہیں ملتان اسکالرز کی اس پہلی نشست میں محض گفتن نشستن اور برخاستن کے مراحل طے نہیں ہوئے بلکہ یہ ملتانی وسیب کے تپتے ہوئے صحرا میں بارش کا تازہ احساس لانے کا ذریعہ بھی بنی ہے ایک مثبت اجتماعی سوچ ایک عزم صمیم اور ایک انسانی جذبے کی تکمیل کے مراحل بھی طے ہوئے ہیں اس پہلی اور ابتدائی خصوصی نشست میں گویا ایک طرح سے ملتان کے اعلی دماغ لوگ اور ایک طرح سے گویا ملتان کی کریم شامل تھی جس میں معروف معالج اور ائی اسپیشلسٹ ڈاکٹر افضل بودلہ سینیٹرانکالوجسٹ ڈاکٹر ابرار احمد جاوید بہاؤ الدین زکریارح یونیورسٹی ملتان کے ڈین اور شعبہ فزکس کے چیئرمین جناب ڈاکٹر جاوید احمد معروف ادیب اور کئی کتابوں کے مصنف کالم نگار اور سابق پولیس افیسر جناب چوہدری شریف ظفر سی ایم ایچ ملتان میڈیکل کالج کے پرنسپل جناب واجد برکی بہت سے ممالک میں کامیاب سفارت کاری کرنے والے سابق سفیر محترم خیام اکبر ڈاکٹر در صبیح سابق پوسٹ ماسٹر جنرل جاوید اقبال اور پی ایچ آ ر سی کے ریسرچ آفیسر سہیل احمد بھی اس خصوصی نشست میں موجود تھے جبکہ ادیب و شاعر جناب شاکر حسین شاکر اور راقم اظہر سلیم مجوکہ بھی جناب پروفیسر اعجاز مسعود کی خصوصی دعوت پر شامل تھے گویا ہر شخص اپنے میدان کا ماہر تصور کیا جاتا ہے ان سکالرز کے عزم اور ارادوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی بہت سے لوگ اس دنیا میں جہاں صرف نمود و نمائش پروٹوکول اور برانڈ کو ہی سب کچھ سمجھا جا رہا ہے وہاں اقدار کو سب کچھ سمجھنے والے اور اپنی انے والی نسل کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے والے لوگ بھی موجود ہیں ہم اج درخت لگائیں گے تو اس کے سائے سے آنے والی نسل مستفید ہوگی جیسے ہمارے لیے ہم سے پہلے والے مہربان شجر سایہ دار لگا گئے ہیں ملتان اسکالر کلب کا قیام یقینا ملتان اور اہل ملتان کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں کہ ملتان ہر لحاظ سے مالا مال ہونے کے باوجود ابھی تک پسماندگی کا شکار ہے اس کا شمار مضافات میں کیا جاتا ہے جہاں مسائل کے انبار لگے ہیں حکومتی اور سیاسی نعرے کے طور پر یہاں جنوبی پنجاب سیکرٹریٹ کا قیام تو عمل میں آگیا لیکن اس کی اہمیت محض ایک لولی پاپ کی سی ہے کہ مسائل کے حل کے لیے اور نصیب کی بارشوں کے لیے یہاں کے مکینوں کو تخت لاہور کی طرف ہی دیکھنا پڑتا ہے اور اس کے نصیب کی بارشیں دوسروں کی چھتوں پر برستی رہی ہیں یہ خوش آئیند امر ہے کہ یہاں سمجھنے والے تھنک ٹینک یہ محسوس کرنے لگے ہیں کہ اپنا مقام آپ بناتے ہیں اہل دل ہم وہ نہیں کہ جن کو زمانہ بنا گیا ۔
ملتان جیسے قدیم اور عظیم شہر کی روایات کو زندہ کرنے کے لیے اور یہاں عامۃ الناس کے لیے کچھ کر گزرنے کے لیے ابھی بہت سی گنجائش ہے تعلیم کا شعبہ ہو طب اور صحت کا شعبہ ہو اخلاقیات کا شعبہ ہو معاشیات کا شعبہ ہو ان سب میدانوں میں بہت کچھ کیا جا سکتا ہے آج بہت سی سماجی تنظیمیں این جی اوز اور مختلف سوسائٹیز کہیں صحت کے لیے صحت کی سہولتوں کی فراہمی کے لیے کیمپ لگاتی ہیں کہیں پر ائی کیمپ لگتے ہیں کہیں غریبوں کا مفت علاج کیا جاتا ہے کہیں انہیں مفت راشن دیا جاتا ہے اس کے باوجود ابھی بھی ہمارے شہر میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اپنی سفید پوشی کی وجہ سے کسی کے اگے اپنا ہاتھ اور دامن نہیں پھیلاتے ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو بھوکے سوتے ہیں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کے سونے کا کوئی ٹھکانہ بھی نہیں ہے ایسے بچے بھی ہیں جو سکولوں میں جانے سے قاصر ہیں فیس نہیں دے پاتے ایسے بچے بھی ہیں جن کو پڑھنے کے لیے کتابیں کاپیاں بھی میسر نہیں ہیں ملتان اسکالر کلب کی اس نشست میں ان سب سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہمارے معاشرے میں ترقی کے مراحل طے نہیں ہونے دیتے سہولتوں کوپنپنے نہیں دیتے یقینا ان تمام مسائل کے حل کے لیے وسائل چاہیں کہ یہ کام حکومت اور اداروں کے کرنے کے ہیں لیکن اگر جذبہ صادق ہو عزم صمیم ہو کچھ کر گزرنے کی تڑپ ہو تو سب کچھ کیا جا سکتا ہے کسی ضرورت مند کی مدد کی جا سکتی ہے کسی ڈوبتے کو بچانے اور باہر نکالنے اور اچھالنے میں اپنا کردار ادا کیا جا سکتا ہے کسی درد مند کے کام آ یا جا سکتا ہے اور ملتان اسکالرز کلب کی اس پہلی نشست میں یہی کچھ کیا گیا تمام لوگوں نے سوچ و بچار کے بعد یہ طے کیا کہ اس فورم کے ذریعے نہ صرف علم و اگہی کے چراغ روشن کیے جائیں گے بلکہ تعلیم صحت معاشیات اور دیگر شعبوں میں بہتری کے لیے اپنا بھرپور کردار ادا کیا جائے گا جس کی ابتدا سکولوں کالجوں سے کی جائے گی یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات سے مکالمہ کیا جائے گا ریسرچ کی حوصلہ افزائی کی جائے گی ائی ٹی کا شعبہ اس وقت ہمارے ملک کی تعمیر و ترقی کے لیے بہت ضروری ہے اور اس شعبے کو فروغ دے کر نہ صرف ہم اپنے ملکی مسائل حل کر سکتے ہیں بلکہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں اور اس کے ساتھ بے روزگاری کے خاتمے میں بھی یہ شعبہ اہم کردار ادا کر سکتا ہے لہذا یہ بھی طے کیا گیا کہ کسی بھی ائی ٹی پروجیکٹ کے لیے یہ کلب اپنی خدمات پیش کرے گا تعلیمی اداروں میں سکولوں میں کالجوں اور یونیورسٹیوں میں اعلی تعلیم حاصل کرنے والے طالب علموں کی معاونت کے لیے بھی دامے درمے اور سخنے اپنا تعاون پیش کرے گا وہ بچے جو وسائل نہ ہونے کی وجہ سے اپنی تعلیم مکمل نہیں کر سکتے ان کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرے گا ٹریفک سینس کے فروغ اور ٹریفک مسائل کے حل اور حادثات کے روک تھام کے لیے نہ صرف ٹریفک کے محکمے کے ساتھ تعاون کرے گا بلکہ اپنے طور مختلف تعلیمی اداروں میں لیکچرز کا اہتمام بھی کرے گا اس نشست میں جہاں سبھی شرکاء نے سیر حاصل گفتگو کی وہاں چوہدری شریف ظفر صاحب کی یہ بات سب کو بھلی لگی کہ ہمیں اپنی ذہین اور جنریشن گیپ کی زنجیروں میں جکڑی ہونہار نسل نو کو خوف کی اسیری سے رہائی دے کر اپنی محبت توجہ اور اسلاف کی اقدار سے روشناس کرانے کی ذمہ داری سے عہدہ برا ہونا ہوگا کہ ہمارے بہت سے مسائل کا حل ہماری اسی نسل نو کے پاس ہے کہ
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی
ملتان اسکالرز کلب کی پہلی نشست میں بہت سے دیگر احباب اپنی مصروفیات اور ناگزیر وجوہات کی وجہ سے شریک نہیں ہو پائے یقینا آنے والی نشستوں میں ان کی موجودگی بھی فائدہ مند ثابت ہوگی ابتدا میں اس کلب کا دائرہ کار ملتان تک رکھا گیا ہے لیکن آنے والے دنوں میں نہ صرف اس میں اور بہت سے لوگوں کو شامل کیا جائے گا بلکہ اس کا دائرہ کار ملتان سے باہر بھی پہنچایا جائے گا امید کی جا سکتی ہے کہ ملتان کے اسکالرز کا یہ فورم تسلسل کے ساتھ اور عزم صمیم کے ساتھ اپنی منزل کی طرف رواں دواں رہے گا اور اہنے اہداف بھی پورے کرے گا اس سیے قبل ملتان میں طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر حیات ظفر ڈاکٹر مصطفے کمال پاشا ڈاکٹر ہارون پاشا ڈاکٹر خالد بخاری اور ڈاکٹر افتخار علی راجہ نے بھی ملتانی وسیب کی شناخت اور اس کی ترقی کے لئے اہم کردار ادا کیا ہے اور اب ملتان اسکالرز کلب کے قافلہ سالار جناب ڈاکٹر اعجاز مسعود بھی اپنی صلاحیتوں کے بھرپور استعمال سے اس خیر سگالی کے سفر کو اور مہمیز بنائیں گے اس قافلے میں اور لوگوں کو بھی شامل کرتے رہیں گے اور یہ فورم ملتان اور اہل ملتان کے لیے تازہ اور ٹھنڈی ہوا کا ایک خوشگوار جھونکا ثابت ہوگا
شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے