حقوق اطفال …اسلام ، اقوام متحدہ اور وفاقی محتسب  

 ظہور اسلام سے پہلے  دنیا جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں لپٹی ہوئی تھی یہ اس دنیا پر اللہ پاک کا خصوصی فضل ہوا کہ نبی کریمﷺ کو رحمت للعالمین بنا کر بھیجا۔ اسلام کے روشن باب شروع ہونے سے پہلے بچیوں کو پیدا ہوتے زندہ دفن کر دیا جاتا۔کہیں دریا برد کردیا جاتا کہ اس سے پانی چلنا شروع ہو جائے گا اور کہیں بچوں اور بچیوں کو دیوی اور دیوتاؤں کے قدموں میں ذبح کر دیا جاتا کہ دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے بچوں اور بچیوں کی بلی چڑھا دی جاتی۔ اسلام کی آمد کے بعد اور دنیا میں پھیلاو کے بعد صورتحال مختلف ہوتی گئی۔ حضرت نعمان بن بشیر  سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا " اللہ تعالیٰ اس کو پسند کرتا ہے کہ تم اپنی اولاد کے درمیان عدل کرو یہاں تک کہ بوسہ لینے میں بھی "مطلب یہ ہے کہ تمام اولاد کے ساتھ ایک جیسا سلوک ہونا چاہیے دوسرے آپ کی بے شمار مثالیں موجود ہیں کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینے کی گلیوں اور بازاروں میں نکلتے تھے بچوں کے ساتھ کیسا حسن سلوک اختیار کرتے تھے اور حسن علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کے ساتھ پیار کے واقعات بھی ہمارے سامنے ہیں مطلب یہ ہوا کہ اسلام کی روشنی پھیلنے کے بعد دنیا کے رنگ ہی بدل گئے اسطرح یہ کہانی چلتے چلتے اقوام متحدہ تک بھی پہنچتی ہے اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے 1959 میں منظور ہونے والا بچوں کے حقوق کا اعلامیہ ایک اہم دستاویز کی شکل اختیار کر جاتا ہے،جس میں بچوں کی صحت کی دیکھ بھال، اچھی غذائیت، تعلیم اور بچوں کے حقوق کی وضاحت کی گئی تھی۔ اس اعلامیہ نے آگے چل کر بچوں کے حقوق سے متعلق بین الاقوامی قانون سا زی کے لئے ایک بنیادی دستاویز  کا کام کیا اور متنوع سیاق و سباق میں بچوں کے حقوق کے تحفظ اور فروغ کے لئے بننے والے قوا نین اور پا لیسیوں کے  با رے میں پو ری دنیا کی رہنما ئی کی۔1989 میں عالمی رہنماو?ں نے بچوں کے حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کے کنونشن کی صورت میں دنیا بھر  کے بچوں کے ساتھ ایک ہمہ گیر عہد کیا۔ جس میں حکومتوں کی ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ بچوں کے حقوق کی بھی بھر پور وضاحت  کی گئی ہے۔  پاکستان میں گزشتہ کئی برسوں سے بچوں  کی حا لت کو بہتر بنانے اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانونی اور ادارہ جاتی فریم ورک  میں بہتر ی لا نے کے لیے مسلسل کوششیں جا ری ہیں۔ یہاں یہ بات  خصو صی اہمیت کی حا مل ہے کہ وفاقی محتسب نے بچوں کی فلاح و بہبود اور ان کے حقوق کے تحفظ کے سلسلے میں اپنی کو ششیں تیز تر کر تے ہو ئے ایک نما یاں کردار ادا کیا اور اس سلسلے میں وفاقی محتسب کا عزم غیر متزلزل رہا۔بچوں کی فلاح و بہبود کو متاثر کرنے والے بڑھتے ہوئے چیلنجوں کے پیش نظر، وفاقی محتسب سیکر ٹیر یٹ میں دفتر شکایات کمشنر برائے اطفال(Office of The Grievance Commissioner for Children)کا قیام عمل میں لا یا گیا جس کی طرف سے وفاقی محتسب کے "تشخیص، تفتیش اور کسی شکا یت کے ازالے اور اصلاح" کے مینڈیٹ پر عملدرآ مد کی بھر پور کوشش کی جا تی ہے تا کہ اس سلسلے میں درپیش چیلنجوں اور رکا وٹوں کی اصل و جو ہات کی نشا ند ہی کر کے اور مناسب طر یق کار وضع کر کے ان رکا وٹوں کو دور کیا جا سکے نیز  اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورتی عمل کے ذریعے ملکی اور بین الاقوامی ذمہ داریوں کو پورا کیا جا سکے۔

   پاکستان کی آبادی 240 ملین سے زیادہ ہے جس  کا 58% بچوں اور نوعمر لڑ کوں پر مشتمل ہے چنا نچہ سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ کم از کم چار شعبوں میں ان کی ضروریات کو کیسے پورا کیا جائے۔(الف) بچوں کی صحت اور بہبود   (ب)بچوں کی غذائیت اور انہیں مناسب خوراک کی فرا ہمی کیوں کہ موسمیاتی تبد یلیوں اور2022 کے سیلاب اور اس کے اثرات کی وجہ سے غذائی تحفظ کی صو رت حال مزید خراب ہو چکی ہے۔ (ج)بنیادی تعلیم اور اسکولنگ کیوں کہ پاکستان میں اسکول سے باہر بچوں کی تعداد بہت زیا دہ ہے (د) بچوں کی فلاح و بہبود اور تحفظ، جو کہ بچوں کی اسمگلنگ، چائلڈ لیبر اور بچوں کے خلاف سائبر کرائمز سمیت دیگر نا پسند ید ہ کا رروائیوں کے باعث سب سے زیادہ خطرناک صورت حال اختیار کر چکا ہے۔ بچوں کے حقوق کیدائرہ کار کے اندر رہتے ہو ئے، شکا یات کمشنربرا ئے اطفال(OGCC) ایک نگران ادارے کا کردار ادا کر رہا ہے اور پاکستان میں بچوں کی حالت پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ کلیدی حکمت عملی میں، دیگر معا ملات کے ساتھ ساتھ، ایسی میڈیا رپورٹس  پر نگا ہ رکھنا بھی شامل ہے جن میں بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کی گئی ہو تی ہے تا کہ مختلف سطحوں پر صوبائی حکام سمیت تمام اسٹیک ہولڈرز کے با ہمی روابط کو ممکن بنا کر طے شد ہ مقا صد اور نتا ئج حا صل کئے جا سکیں۔  مذکورہ بالا صورت حال  کو مدنظر رکھتے ہوئے، مندرجہ ذیل چند اہم اقدامات اٹھا ئے گئے ہیں:  (1) بچوں کے حقوق سے آ گا ہی کے لئے ''Promotion & Protection of Child Rights''کے عنوان سے ایک تفصیلی کتا بچہ شائع کیا گیا ہے۔ (2) بچوں کے خلاف تشدد کے واقعات اور ان کے مو ئثر ازالے کے لئےOGCC میڈ یا میں رپورٹ  ہو نے والے واقعات پر گہر ی نظر رکھتا ہیَ۔ (3)اکتو بر 2022میں اسلام آ باد میں اسٹریٹ چلڈرن کی حالت زار کے بارے میں ایک تفصیلی اسٹڈ ی رپورٹ تیار کی گئی جس کی سفارشات انتظامی اداروں اور پرا ئیو یٹ تنظیموں کو بھیجی گئیں کیو نکہ یہ قانون سازی اور نجی شعبے کی مدد کی متقا ضی تھیں۔ اب یہ سفا رشات عملد رآ مدکے مختلف مراحل میں ہیں، مثلاً فیڈرل ڈائریکٹوریٹ ا?ف ایجوکیشن (FDE)، این جی اوزکے ساتھ مل کر، اسلام آ بادمیں اسٹر یٹ چلڈ رن کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی ذمہ داری  ادا کر رہا ہے۔FDE  اب تکNAVTTC کے تعاون سے 42 غیر رسمی تعلیمی مراکز اور 06 ٹیکنیکل  لیبا رٹر یاں قائم کرنے کے علاوہ موجودہ اسکولوں میں تقریباً 18000 بچوں کو داخل کرا چکا ہے۔ وفاقی محتسب سیکر ٹیر یٹ اس تمام عمل میں متعلقہ اداروں سے رابطہ میں ہے۔  
OGCC (4)نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام کے معاملے کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا ہے اور اس سلسلے میں چار اہم سمتوں پر خصو صی توجہ مرکوز کی ہے۔(الف)بیداری پیدا کرنا اور میڈیا میں احسا س ذمہ داری بڑ ھا نا (ب) صلا حیتوں میں اضا فے کی وکا لت (ج)قانونی اصلاحات  اور  (د) تعلیمی اصلاحات… پیمرا، پی ٹی وی، پی بی سی، پی ٹی اے اور دیگر سوشل میڈیا ذرائع  سے عوامی خدمت کے پیغامات کو باقاعدگی سے پھیلانے کے ساتھ ساتھ عوام میں آگاہی پیدا کرنا اور  اس معا ملے میں میڈ یا  کے اندر حسا سیت کو اجا گر کر نا ایک مسلسل عمل ہے۔ اسی طرح ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کے تعاون سے بچوں کو سائبر کرائمز کے خطرے سے بچانے اور آ گا ہ کر نے کے لئے اس معا ملے کو اسلام آ باد میں متعلقہ اداروں کے ساتھ اٹھا یا گیا۔ وفاقی محتسب کے ادارے کی جانب سے COMSATS یونیورسٹی اسلام ا?باد کے تعاون سے 30 نومبر 2023 کو'' بڑ ھتے ہو ئے سا ئبر کرا ئمز اور معا شر تی کمز ور یوں'' کے موضوع پر ایک روزہ سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا، جس میں مختلف سرکاری وزارتوں کے نمائندوں ، اداروں اور اسٹیک ہولڈرزنیشرکت کی۔  سیمینار میں اس بات پر زور دیا گیا کہ سائبر کرائمز کی ابھر تی ہو ئی نو عیت کا مقابلہ کرنے والی ٹیکنالوجی  کا حصول اور استعمال وقت کی ایک اہم ضرورت ہے، جس کے لیے تمام شعبوں میں مسلسل موافقت، تعا ون اور اخترا عی اقدا مات کی اشد ضرورت ہے۔ وفاقی محتسب کا دفتر اپنی ذمہ دار یوں سے بخوبی واقف ہے اور اپنا کردار ادا کرنے کے تمام مواقع استعمال کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتا ہے۔ واضح رہے کہ وفاقی محتسب کے ادارے میں بچوں سے متعلق کیسز کی رپورٹنگ کے لیے  الگ سے ایک ہیلپ لائن نمبر 1056 بھی موجود ہے۔ جہاں تک بچوں کے تحفظ کے سلسلے میں قا نو نی اصلا حات  کا تعلق ہے، پا رلیمنٹ کی جانب سے زینب الرٹ ریسپانس اینڈ ریکوری ایکٹ 2020 کی منظوری، پاکستان میں بچوں کے تحفظ کے لیے قانونی اصلاحات میں اہم اقدامات کی عکاسی کرتی ہے جو کہ زینب انصاری کے نام سے منسوب ہے اور جس کے المناک کیس نے عوامی غم و غصے کو جنم دیا۔ اس ایکٹ کے ذریعے گمشدہ یا اغوا شدہ بچوں  کی تیزی سے اطلا ع دینے اور  انہیں جلد از جلدبازیاب کرانے کے لیے ایک جامع نظام قائم کیا گیا ہے۔اسی طر ح 18 جولائی 2023 کو پارلیمنٹ نے بچوں کے خلاف سائبر کرائمز کی روک تھام اور کنٹرول کے قانون میں ترمیمی ایکٹ منظور کیا جو کہ قانونی فریم ورک کو جدید چیلنجوں سے ہم آہنگ کرنے میں وفاقی محتسب کی مسلسل کوششوں  کا غماز ہے۔ بچوں کی قومی کمیٹی (NCC) بھی ایک اہم فورم ہے جسے وفاقی محتسب نے قائم کیا، یہ کمیٹی مشا ورت کے ساتھ کام کرتی ہے۔ اس کے مینڈیٹ میں بچوں کے حقوق خاص طور پر خطرا ت میں پڑنے والے بچوں کی حالت کی نگرانی اورحفا ظت نیز شکا یات کمشنر برا ئے اطفال (OGCC) کے ذریعے ان  کی شکایات کا ازالہ اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت  سے انتظامی مسائل حل کرنا شا مل ہے۔ امید کی جاتی ہے کہ یہ کمیٹی بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے ٹھوس حکمت عملی تیار کرنے کے سلسلے میں جا مع اور قا بل عمل تجا ویز پیش کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

پاکستان : منزل کہاں ہے ؟

وطن عزیز میں یہاں جھوٹ منافقت، دھوکہ بازی، قتل، ڈاکے، منشیات کے دھندے، ذخیرہ اندوزی، بد عنوانی، ملاوٹ، رشوت، عام ہے۔ مہنگائی ...