العلا میں پانچ ہزار سال قبل زیورات بنانے کا راز دریافت کرلیا گیا

سعودی عرب کے محکمہ آثار قدیمہ کےزیراہتمام کی گئی ایک تحقیق کے نتائج میں ایک اہم دریافت کا اعلان کیا گیا ہے۔شاہی کمیشن برائے العلا گورنری نے ایک سائنسی تحقیق کے نتائج جاری کیے ہیں جس میں یہ انکشاف کیا گیا ہے کہ مملکت کے شمال مغرب میں پتھر کے جدید دورمیں انسانی بستیوں میں استحکام اور ترقی کی یہ ریافت کمیشن کے زیر نگرانی وسیع مطالعات کے نتیجے میں ہوئی ہے۔ اس دریافت کا عرصہ چھٹی اور پانچویں صدی قبل مسیح کے دور کا ہے جب انسانی آبادی کافی حد تک ترقی یافتہ تھی۔تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ اس علاقے کے باشندے نہ صرف مویشی پالنے، گلہ بانی اور زراعت پر انحصار کرتے تھے بلکہ زیورات بنانے اور تجارت کرنے میں بھی جدید مہارت رکھتے تھے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت انسان جغرافیائی محل وقوع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ہمسایہ ممالک جیسے مشرقی اردن اور بحیرہ احمر کے ساحل پر واقع خطوں کے ساتھ تجارتی سرگرمیوں میں مشغول تھے۔العلا رائل کمیشن نے کہا کہ اس نے 430 سے زیادہ پتھروں کے دائروں کی جانچ کی جس کا قطر چار سے آٹھ میٹر کے درمیان تھا۔یہ پتھر زیادہ تر چھتوں کو سہارا دینے والے لکڑی کے ستونوں کی بنیادوں پر نصب کیے جاتے اوران کی چھتوں کو جانوروں کی کھالوں سے ڈھانپا جاتا تھا۔

ثقافتی اور اقتصادی تعلقات
 آثار قدیمہ کے تجزیوں نے العلا اور دیگر خطوں کے باشندوں کے درمیان پیچیدہ ثقافتی اور اقتصادی تعلقات کا وجود ظاہر کیا، جہاں کی معیشت زراعت، گلہ بانی اور مویشیوں کی پرورش کے آثارملتے ہیں۔العلا کے رائل کمیشن میں آثار قدیمہ کی تحقیق اور ثقافتی ورثہ کی ڈائریکٹر ربیکا فوٹ نے العلا کے بھرپور ثقافتی ورثے کے بارے میں مزید انکشاف کرنے اور آثار قدیمہ کی تحقیق کے لیے ایک عالمی مرکز تیارکے عزم کا اظہار کیا۔ان کا کہنا تھا کہ یہ مطالعات متعدد چیزوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ ان میں قدیم باشندوں کی زندگی کے پہلو، ان کے شکار اور رسومات سے لے کر روز مرہ زندگی کے طرز کو اجاگر کرتے ہیں.

ای پیپر دی نیشن