ڈونر کباب (کبابِ ترکی/شوارما) کیسے بنتا ہے، اس پر ترکیہ اور جرمنی کے درمیان ایک مصالحہ دار تنازع کھڑا ہو گیا ہے۔ برلن نے مشہور کھانے کی محفوظ حیثیت کے لیے ترکیہ پر اعتراض کیا ہے۔
ایک عمودی سلاخ پر چڑھا کر پکائے ہوئے گوشت کے باریک پارچہ جات سے تیار کردہ ڈونر کباب کی ابتدا ترکی سے ہوئی ہے لیکن ترک تارکینِ وطن کی طرف سے جرمنی میں متعارف ہونے کے بعد وہاں بھی یہ مرغوب غذا ہے۔اپریل میں ترکیہ میں قائم انٹرنیشنل دونر فیڈریشن (یوڈوفیڈ) نے ڈونر کباب کو روایتی خاصیت کی ضمانت (ٹی ایس جی) کا درجہ دینے کے لیے یورپی کمیشن کو درخواست دی۔بالکل درست گوشت اور مصالحہ جات سے لے کر گوشت کے ٹکڑے کرنے کے لیے استعمال ہونے والے چاقو کی موٹائی تک یوڈوفیڈ چاہتا ہے کہ ڈونر کی تعریف ایک سخت معیار پر عمل کرے۔کامیاب ہو جانے کی صورت میں یہ درخواست یورپی یونین میں کھانے کے کاروباروں کو ڈونر کباب کا نام استعمال کرنے سے روک دے گی جب تک وہ معیار پر پورا نہ اترے جس سے اسے اٹلی کے بوفالا موزاریلا یا سپین کے سیرانو ہیم جیسی محفوظ حیثیت مل جائے گی۔اپنی درخواست میں یوڈوفیڈ نے 1546 کے مخطوطات میں موجود نسخے کا حوالہ دیتے ہوئے دونر کا ابتدائی تعلق سلطنتِ عثمانیہ سے بتایا۔لیکن اس سے جرمنی میں ایک ہنگامہ برپا ہو گیا جہاں دونر ملک کی بڑی ترک برادری کا ایک مخصوص نشان بن گیا ہے جو 1960 اور 70 کے عشروں میں ایک بڑے اقتصادی پروگرام کے تحت مدعو کیے گئے "مہمان کارکنان" سے تعلق رکھتی ہے۔جرمن دارالحکومت تو ڈونر کباب کے "برلن کی ایجاد" ہونے تک کا دعویٰ کرتا ہے۔شہر کی ویب سائٹ کے مطابق "یہ برلن میں ہوا: ایک عام روایت ہے کہ قادر نورمان نے سب سے پہلے 1972 میں گوشت کو روٹی میں رکھ کر ڈونر کا ایسا ورژن ایجاد کیا جو جرمنی میں بہت پسند کیا جاتا ہے۔"دونر کا تعلق جرمنی سے ہے۔ ہر ایک کو خود فیصلہ کرنے کی اجازت ہونی چاہیے کہ یہ یہاں کیسے تیار کیا اور کھایا جاتا ہے۔ انقرہ سے کسی رہنمائی کی ضرورت نہیں ہے۔" یہ بات وزیرِ زراعت سیم اوزدیمیر نے کہی جن کے والدین ترکیہ سے ہجرت کر کے آئے تھے۔
گوشت دار دلیل
ایک ترجمان نے اے ایف پی کو بتایا کہ جرمنی کی وزارتِ زراعت نے ترکیہ کی درخواست کو "حیرت سے" دیکھا۔ترجمان نے کہا، اگر کمیشن اس "نادرست" اور "متضاد" تجویز کو قبول کر لے تو "جرمن شعبۂ طباخی (کھانا بنانا) کے معاشی نتائج بہت زیادہ اور گہرے ہوں گے"۔دی ہوگا ہوٹل اور کیٹرنگ یونین نے "وضاحت اور شفافیت کے فقدان"، "قانونی تعریفوں میں مشکلات" اور "مستقبل کے تنازعات کے ایک سلسلے" سے بھی خبردار کیا۔جرمن حکومت نے بدھ کو یورپی ڈیڈ لائن سے عین قبل ترک درخواست پر اعتراض درج کرایا۔برلن میں جہاں دونر نے طویل عرصے سے ساسیج کو پسندیدہ ناشتے یا کھانے کے طور پر پیچھے چھوڑ دیا ہے، بیرول یاگسی کو تشویش ہے کہ ترک ورژن میں صرف گائے کا گوشت، میمنا یا چکن استعمال کیا جاتا ہے۔شہر کے کروزبرگ ضلع میں ایک ترک ریستوران کے شیف نے اے ایف پی کو بتایا، "یہاں یہ مختلف ہے۔ روایتی نسخہ بچھڑے کے گوشت کے ساتھ بنایا جاتا ہے۔"ان کے پیچھے گوشت دو سیخوں پر لگا ہوا تھا۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ ٹرکی پرندے کا گوشت تھا اور اس کی بھی نئی تعریف کے تحت اجازت نہیں ہوگی۔پوری دنیا میں لوگ دونر کھاتے ہیں۔ ترکیہ دوسروں کو یہ حکم نہیں دے سکتا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔" 50 سالہ شخص نے کہا۔ایک دونر کیوسک کے مالک 39 سالہ عارف کیلس نے کہا جن کے صارفین میں جرمنی کی قومی فٹ بال ٹیم شامل ہے، "میرے گاہک میمنے کا گوشت پسند نہیں کریں گے۔ اس کا ایک خاص ذائقہ ہوتا ہے۔"کیلس نے بھی کہا کہ وہ اپنی ترکیبیں تبدیل کرنے کے بجائے جلد ہی اپنی مصنوعات کا نام بدل لیں گے۔انہوں نے کہا، "میرے گاہک جانتے ہیں کہ وہ کیا کھا رہے ہیں اس لیے جب تک معیار باقی ہے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس کا کیا نام ہے۔"
ڈونر ڈپلومیسی
ایسوسی ایشن آف ڈونر مینوفیکچررز ان یورپ (اے ٹی ڈی آئی ڈی) کے مطابق جرمنی میں یورپ کی دونر کباب کی کل فروخت کا دو تہائی حصہ ہے جس کی مالیت سالانہ 2.4 بلین یورو (2.6 بلین ڈالر) ہے۔
اپریل میں جرمن صدر فرانک-والٹر سٹین مائر دونوں ممالک کے درمیان قریبی تعلقات کی علامت کے طور پر کیلس کو ترکیہ کے دورے پر بھی اپنے ساتھ لے گئے۔کیلس ایک سرکاری استقبالیہ میں بچھڑے کے گوشت کی ایک بڑی سیخ کے ساتھ پہنچے جس پر ان کے مہمانوں کو بہت "تجسس" تھا۔شیف نے کہا جن کے دادا ترکیہ سے جرمنی ہجرت کر گئے تھے، "ترکیہ میں دونر پلیٹ میں کھایا جاتا ہے۔ میں نے اسے برلن کی طرز پر چٹنی کے ساتھ روٹی پر پیش کیا اور انہیں یہ بہت پسند آیا۔"لیکن ادارے کے زراعت کے ترجمان اولوف گل کے مطابق یورپی کمیشن کو اب یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ آیا ڈونر کا تنوع اس تنازع کا فاتح ہو گا۔انہوں نے کہا کہ اگر ترکیہ کی درخواست پر اعتراض قابلِ قبول پایا جائے تو فریقین کے پاس سمجھوتہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ چھ ماہ کا وقت ہوگا۔