تیگوسی گالپا (ہونڈراس) (رائٹر/اے ایف پی/ نیٹ نیوز/ مانیٹرنگ ڈیسک) لاطینی امریکہ کے ملک ہونڈراس میں فوج نے منتخب حکومت کا تختہ الٹنے کے بعد صدر مینوئل زیلایا اوسیلز کو گرفتار کرنے کے بعد انہیں مارتے پیٹتے ہوئے کوسٹاریکا میں ملک بدر کر دیا ہے۔ صدر زیلایا نے وہاں سیاسی پناہ کی درخواست دے دی ہے۔ صدر زیلایا کے گارڈز پر بھی بُری طرح تشدد کیا گیا۔ ہونڈراس کے ایک جانب گوئٹے مالا اور دوسری جانب نکاراگوا واقع ہے۔ 1980ء کی دہائی سے ہونڈراس میں فوجی حکومت چلی آ رہی تھی اور جنوری 2006ء کی دہائی میں صدر زیلایا 75ہزار ووٹوں کی اکثریت سے کامیابی حاصل کی تھی۔ وہ اپنے اقتدار کی مدت میں توسیع کے لئے ریفرنڈم کرانا چاہتے تھے۔ سپریم کورٹ نے اس ریفرنڈم کو غیرآئینی قرار دے دیا تھا۔ ان کی اپنی جماعت کے اندر بھی ریفرنڈم کے حوالے سے مخالفت پائی جا رہی تھی۔ ہونڈراس کے آئین کے مطابق وہ دوبارہ صدر نہیں بن سکتے تھے۔ سرکاری طور پر 29نومبر کو صدارتی انتخابات کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ صدر زیلایا نے کہا ہے کہ انہیں ظالمانہ طور پر اغوا کیا گیا ان کے خلاف بغاوت کی گئی ہے۔ انہوں نے کہاکہ امریکہ اس حوالے سے پوزیشن واضح کرے کہ وہ اس میں ملوث ہے یا نہیں۔ صدر مینوئل زیلا نے سپریم کورٹ‘ فوج کانگریس اور حکمران جماعت کے ارکان کی مخالفت کے باوجود اس متنازعہ ریفرنڈم کرانے کا اعلان کر دیا تھا۔ انہوں نے فوجی سربراہ کو بھی عہدہ سے ہٹا دیا تھا۔ صدر مینوئل کے پرسنل سیکرٹری ایزک رینا نے اخبار نویسوں کو بتایا کہ فوجی اہلکاروں نے صدر کے گھر کا محاصرہ کیا۔ بعدازاں انہیں گرفتار کرکے دارلاحکومت کے دور دراز علاقے میں واقع ائرفورس بیس منتقل کر دیا۔ امریکی خبررساں ادارے کے صحافی نے بتایا کہ اس نے خود گرین ہیلمٹ پہنے فوجی اہلکاروں کو صدر مینوئل کے گھر کا محاصرہ کرتے دیکھا۔ بعدازاں فوجی انہیں مارتے پیٹتے ایوان صدر سے باہر لائے‘ زبردستی گاڑی میں سوار کرایا اور کوسٹاریکا کی پرواز میں سوار کرا دیا۔ فوجیوں نے وینز ویلا‘ نکاراگوا اور کیوبا کے سفیروں کو بھی اغوا کر لیا۔ اس فوجی بغاوت کے بعد صدر زیلایا کے حامی صدارتی محل کے باہر اکٹھے ہو گئے۔ انہوں نے فوجیوں پر پتھرائو کیا اور ’’تم غدار ہو‘‘ کے نعرے لگائے۔ امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ ہونڈراس کے واقعات انتہائی افسوسناک اور تشویشناک ہیں۔ وہائٹ ہائوس نے اس کی تردید کی ہے کہ امریکہ اس میں ملوث ہے۔ وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے فوجی بغاوت کی مذمت کرتے ہوئے مسئلہ کے پُرامن حل کی ضرورت پر زرو دیا ہے۔ یورپی یونین نے اور عالمی رہنمائوں نے بغاوت کی مذمت کی ہے جبکہ کیوبا کے صدر ہوگو شاویز نے کہا ہے کہ اس میں امریکہ ملوث ہے۔ انہوں نے بھی واقعہ کی مذمت کی۔