شکایات سیل نہیں‘ پرچھائیں

Jun 29, 2009

سفیر یاؤ جنگ
مکرمی! معاشرتی نظام کے استحکام کی بنیاد ہمارے خاندانی نظام کی مضبوطی ہے۔ یہ یورپ نہیں جہاں ماں باپ اپنے بچوں کو اوائل شباب کی عمر یعنی ٹین ایج تک پہنچتے ہی آزاد کر دیتے ہیں۔ بچوں کو آزادی آزاد ماحول میں ملتی ہے۔ ہمارے ماں باپ بچوں کی تاحیات راہنما ہوتے ہیں۔ ہمارے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ بچوں کی پیدائش کے بعد ہی معدوم ہو جاتی ہے۔ ماں کی دعائیں‘ راہنمائی نگرانی اور سر پرستی ہی قوموں کے ہیروز تشکیل دیتی ہے۔ ڈائریکٹر شکایات سیل وزیر اعلیٰ پنجاب شاہد قادر کا دفتر 3کلب روڈ‘ اندر باہر اس قدر پرہجوم کہ ہجوم از خود پریشان کن باشد … یہ سائلوں کا ہجوم ہے دکھی انسانیت کا ہجوم‘ زمانے کے ستائے ہوئے ناانصافیوں کا شکار غم کے ماروں کا ہجوم شاہد قادر صاحب ہنستے مسکراتے‘ ہر خستہ حال پریشان و لاچار کی فریاد سنتے اور فوری ایکشن لیتے‘ نہ چہرے پر خفتگی‘ نہ پیشانی پہ شکن‘ جو جتنا دور سے آیا اس کو اتنا احترام ملا‘ جو جتنا زمانے کا ستایا اسے اتنا حوصلہ دیا‘ جو جتنا ناانصافی کا مارا اسے اتنا ہی قادر صاحب نے انصاف دیا۔ بچیوں کے پریشان حال والدین سسرال والوں کے ظلم سے تنگ‘ سنگدل و ظالم شوہروں کی ستم ظریفی سے مجبور بہنوں کو تحفظ کا سائبان دینا یہ ڈائریکٹر صاحب ہی کا کارنامہ دیکھا وہاں روز روز کی تنگی و مایوسی سے ایک پل نکال کر وزیر اعلیٰ کے شکایات سیل میں آ جائیں تو احساس ہوتا ہے کہ یہاں بندۂ خدا روتا آتا ہے لیکن ہنستا واپس جاتا ہے۔ وزیر اعلیٰ شکایات سیل میں زیادہ شکایتیں پولیس ڈیپارٹمنٹ کے خلاف آرہی ہیں پھر بے روزگاروں‘ شوہر و سسرال والوں کے ہاتھوں مظلوم بچیوں کی تکلیفوں کا ازالہ کرنے کی درخواستیں بھی سینکڑوں ہیں۔ روزانہ وزیر اعلیٰ شکایات سیل میں جرائم و کرائم کے ساتھ ساتھ معاشرتی و معاشی بدحال پرنم انسانیت سینکڑوں کے حساب سے اپنی شکایات جمع کراتے ہیں۔ الحمدللہ قمر الزماں اور شاہد قادر اپنے دفتر میں ہی فوری ایکشن لیتے ہیں اور جہاں ضروری ہو وہاں اپنی ٹیم کے ساتھ خود بھی پہنچ کر معاملہ کی گتھیاں سلجھاتے ہیں۔ وزیر اعلیٰ شکایات سیل کی کارکردگی دیکھتے ہوئے اسے شکایات سیل کا نام دینا عجیب معلوم ہوتا ہے کیونکہ سائل تو عدالتوں اور تھانوں میں بھی آتے ہیں‘ ہسپتالوں اور دارالامانوں میں بھی آتے ہیں لیکن اس شکایات سیل میں وہ رلتے نہیں بلکہ انہیں ریلیف ملتا ہے۔ جہاں دکھی انسانیت کو ریلیف ملے اور جس جگہ تپتی دھوپ پہ بلکتی انسانیت کو ماں جیسی ٹھنڈی پرچھائی ملے اسے شکایات سیل نہیں ’’پرچھائیں‘‘ یا ’’سائبان‘‘ کہا جانا چاہئے۔ یہ نظام یورپ میں تو گذشتہ کئی دہائیوں سے چل رہا ہے لیکن پاکستان کے صوبہ پنجاب میں اس نظام کو اتنی کامیابی سے چلانا باعث مسرت امر ہے۔ (راحیلہ خاتون … لاہور)
مزیدخبریں