کراچی میں ایک نوجوان سرفراز شاہ کے رینجرز کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے دوسرے روز پاکستان کی قومی اسمبلی میں مخدوم جاوید ہاشمی نے جس انداز سے اس بربریت کے خلاف آواز اٹھائی اس نے پورے پاکستان میں ہلچل مچا دی اپنی تقریر کے دوران وہ خود بھی اپنے جذبات پہ قابو نہ رکھتے ہوئے آنسوو¿ں میں شرابور ہوگئے اور ایوان کے دوسرے کئی ممبران کو بھی رُلا دیا اس کے بعد میں نے ان کو ایک ٹی وی پروگرام میں دےکھا اور گفتگو کے دوران وہ یہاں بھی ہچکیاں لےنے لگے ان کی باڈی لینگوےج سے صاف نظر آرہا تھا وہ اپنے دلی جذبات کا اظہار کر رہے تھے اس سے پہلے بھی اگر ان کے سیاسی کردار پر ایک نظر ڈالیں تو شائد ہی پاکستان میں ان جیسے صاف اور شفاف کردار کا کوئی راہنماءنظر آئے گا اس سے بھی پہلے جب وہ طالبعلم لیڈر ہوا کرتے تھے تو ان دنوں بھی ان کی آواز ظلم کے خلاف گونجتی رہتی تھی۔غالباً مارچ 1973ءمیں جب میں نے تحریک استقلال پاکستان میں شمولیت اختیار کی تو اسی زمانے میں جاوید ہاشمی صاحب کے ایک ساتھی اور طالبعلم لیڈر شیخ رشید احمد صاحب (جو آجکل عوامی مسلم لیگ کے صدر ہیں) بھی تحریک استقلال میں شامل ہوئے۔ ائر مارشل (ر) اصغر خان اس جماعت کے صدر تھے جن کی دیانتداری، ذہانت، صاف گوئی اور جرا¿ت نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کا ساتھ دوں۔ 1974ءکی سردیوں میں مردان میں تحریک استقلال کے کارکنوں کا سالانہ اجلاس ہو رہا تھاجس میں شمولیت کےلئے میں بھی وہاں گیا اس وقت بھی مےری خواہش تھی کہ جاوےد ہاشمی صاحب کو کسی طرح تحریک استقلال میں شمو لیت کےلئے کہا جائے۔ میں چاہتا تھا کہ ہر سال پاکستان میں اپنے تین چار ہفتوں کے قیام کے دوران کسی طرح جاوید ہاشمی صاحب سے ملاقات ہوجائے لےکن بد قسمتی سے ایسا نہ ہو سکا البتہ راجہ نادر پروےز جو مےرے شہر لائل پور کے رہنے والے تھے وہ مےری کوششوں سے تحریک استقلال میں ضرور شامل ہو گئے۔جاوےد ہاشمی کا شمار آجکل مسلم لیگ(ن) کی صف اول کے راہنماو¿ں میں ہوتا ہے۔ جنرل پروےز مشرف کے زمانے میں اور اس سے بھی پہلے وہ کئی دفعہ جےلوں میں گئے جہاں اکثر ان پر تشدد کیا جاتا رہا لےکن انہوں نے انتہائی ثابت قدمی کے ساتھ سب کچھ برداشت کیا اور اپنے اصول اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے مگر مجھے انتہائی دکھ اور کرب سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ میاں محمد نواز شریف ابھی تک اپنی جماعت کے اندر اس گوہر نایاب کی شناخت میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ لندن میں میاں صاحب کے قریبی دوست ڈاکٹر طاہر حفیظ طوسی سے مےرے دےرینہ مراسم چلے آ رہے ہیں دوسری باتوں کے علاوہ ان سے مسلم لیگ (ن) کے بارے میں بھی بے تکلفی سے گفتگو ہوتی رہتی ہے اور جواب بھی وہ اسی بے تکلفی سے دےتے ہیں ایک دن میں نے ان سے کہا کہ خدا کےلئے میاں صاحب کو سمجھائیں کہ وہ مسلم لیگ کو قبضہ گروپ نہ بننے دیں اور جماعت میں موجود جاوید ہاشمی جیسے قابل لوگوں کو بھی آگے آنے کے مواقع فراہم کریں انہوں نے جواب دیا کہ میاں صاحب کے پاس ان کی شاندار (SHANDAR) ٹیم موجود ہے اور اس کی موجودگی میں کسی کی بھی دال نہیں گل سکتی میں نے پوچھا کہ شاندار (SHANDAR) ٹیم سے ان کی کیا مراد ہے تو وہ بولے کہ SHسے شہباز (شہباز شریف) A سے آصف (خواجہ آصف) N سے نثار (چوہدری نثار علی) اور DAR سے اسحاق ڈار تو ان کی موجودگی میں شائد وہ دوسروں کی ضرورت محسوس نہیں کرتے لےکن وہ بھی مجھ سے متفق تھے کہ میاں صاحب کو اپنی جماعت کے اندر دوسرے راہنماو¿ں خصوصاً جاوید ہاشمی جیسے عظیم راہنماو¿ں کو نہ صرف اپنے ساتھ رکھنا چاہیئے بلکہ ان کی باتوں کو بھی خاصی اہمیت دےنی چاہئے۔بدقسمتی سے پاکستان میں سیاست بھی تجارت بن گئی ہے اور جب تک کسی لیڈر کے پاس رہنے کےلئے محلات اور خرچ کرنے کےلئے دولت کے انبار نہ ہوں وہ کسی جماعت کا سربراہ بھی نہیں بن سکتا اور بھی شرم کی بات یہ ہے کہ ہمارے عوام بھی کسی عام یا مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے قابل اور سیاسی فہم و شعور سے بہرہ ور کو لیڈر نہیںمانتے باوجود اس کے کہ وہ ان ددلتمند زہریلے سانپوں سے ایک بار نہیں کئی بار بلکہ ہر بار ڈسے جاتے ہیں نتیجہ ظاہر ہے اور ہم سب کے سامنے ہے پاکستان کے سیاسی اور معاشی حالات کا تجزیہ کریں تو آپ دےکھیں گے کہ 1947ءسے لے کر 2011ءتک ہم بتدریج غیر ممالک کی غلامی اور معاشی بد حالی کی اتھاہ گہرائیوں میں گرتے ہی جا رہے ہیں اور یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک ہمارے سیاسی جوہری سید جاوید ہاشمی جیسے انمول ہیروں کی شناحت کرنے میں دانستہ یا غیر دانستہ ناکام رہیں گے۔