80ءکے عشرے کے ابتدائی ایام میں جب مجھے جلاوطنی اختیار کرکے یورپ جانا پڑا تو میں نے وہاں جا کر محسوس کیا کہ ہمارے پاکستانی میڈیا اور یورپین میڈیا میں ایک بنیادی فرق ہے اور وہ ہے میچورٹی کا ۔ان دنوں یورپی میڈیا اپنی ترقی کی ارتقائی منازل بڑی تیزی سے طے کر رہا تھا جبکہ پاکستانی میڈیا مسلسل جدوجہد کے دور سے گزر رہا تھا اور وجہ اس کی پاکستان کے اند رآمریت کا تسلسل تھا ۔ ان دنوں دنیا بھر میں پرنٹ میڈیاکی حد تک تو غیر سرکاری ادارے موجود تھے مگر الیکٹرانک میڈیا کو ابھی ریاستی تسلط سے آزادی نہیں ملی تھی۔یورپین میڈیا رپورٹنگ کے شعبے میں ہمارے پاکستانی میڈیا سے بہت آگے نکل چکا تھا ان کی رپورٹنگ کا معیار صحافتی شعبے کے قواعد و ضوابط اور اصولوں کے عین مطابق تھا۔ جبکہ پاکستان میں ابھی تک اَن پڑھ صحافی اور پہلوان رپورٹر بھرتی کرنے کا رواج ہے ۔2000ءکے شروع میں جب یورپ الیکٹرانک میڈیا کے شعبے میں بھی بہت آگے نکل چکا تھا تو پاکستان میں ایک پرائیویٹ الیکٹرانک چینل کی نشریات شروع ہوئیں جبکہ 2002ءکے الیکشن سے پہلے چند ایک ٹی وی چینلز ،ٹیسٹ نشریات شروع کر چکے تھے۔پھر مشرف کے دورِ حکومت میں بغیر پلاننگ کے منصوبوں کو جو حشر ہوا (سی این جی گیس اسٹیشنوںکی منظوری بھی اسی دورکا پراجیکٹ ہے)اور بلا سوچے سمجھے اور منصوبہ بندی کے بغیر درجنوں ٹی وی چینلز کے لائسنس سیاسی رشوتوں کی غرض سے بانٹے گئے ۔قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک وطن عزیز میں سیاست کی طرح صحافت بھی لیفٹ اور رائٹ کے گورکھ دھندوں میں بٹی نظر آئی ہے۔
صحافت میں بھی ایک طبقہ نظریاتی صحافت کا علمبردار ہے جبکہ دوسرا طبقہ سرخے ،لبرل ، پروگریسوکہلوانے کا خواہش مند رہا ہے ۔ ان دونوں طبقات کے درمیان ہمیشہ ایک خلیج موجود رہی ہے۔9/11کے بعد پاکستان کو بادل نخواستہ امریکی جنگ میں شامل ہونا پڑا تو یہ صحافتی خلیج بھی ہمیں بڑھتی ہوئی نظر آئی۔جس سے قوم واضح طور پر دو حصوں میں بٹ گئی اور جس کا نتیجہ آج یہ ہے کہ ہمیں لاکھوں جانوں کی قربانی سینکڑوں ارب ڈالر کا معاشی نقصان کرکے بھی ابھی تک یہ پتہ نہیں کہ یہ جنگ امریکہ کی تھی یا ہماری اپنی پیدا کردہ؟اور ا س میڈیا کی اندرونی جنگ میں، میں نے درجنوں موقع پرستوں کو فوائد حاصل کرتے دیکھا ۔میں آج بھی ایسے کئی سٹاراینکرزکو جانتا ہوں جو لاہور کی سڑکوں پر کاپی پنسل پکڑے پنکچر سائیکل یا موٹرسائیکل کو گھسیٹتے نظر آتے تھے۔مگر آج ان اینکرز اور صحافیوں کی رسائی گورنرہاﺅس، وزیراعظم ہاﺅس اور صدار ہاﺅس میں بلاروک ٹوک ہے۔جبکہ صحافتی کرپشن کی اس بہتی گنگا میں ڈبکیاں لگانے والوں نے نہ صرف ملک کے اندر سیاسی چپقلش سے فائدہ اٹھایا بلکہ” را“،”موساد“، ”سی آئی اے“ اور دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیوں کے تنخواہ دار ملازم تک بن گئے ۔ وہ آج بڑی ڈھٹائی سے اپنے آپ کو امریکی تھینک ٹینک، رشین تھینک ٹینک، عرب تھینک ٹینک، ایرانی تھینک ٹینک کا ممبر کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس طرح چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے بھی وہ غیروں کے ہاتھوں کھیل رہے ہیں اورستم ظریفی یہ ہے کہ خود کو ریاست کا چوتھا خودساختہ ستون سمجھنے والا یہ طبقہ نہ صرف ملکی اساس کو کھوکھلا کر رہا بلکہ ملکی اداروں کے خلاف کمربستہ بھی ہے۔مثال طور پر یورپ ،امریکہ ،برطانیہ سمیت پوری دنیا کے کسی بھی ملک میں اس ملک کی خفیہ ایجنسیوں اور اداروں کوریاست کے خلاف کام کرنے والے عناصر کو بغرض تفتیش اور پوچھ گچھ بغیر کسی مقدمے کے اندراج اور وکیل تک رسائی کے کسی بھی شخض کو ایک خاص مدت کے لیے حراست میں لینے کا اختیار ہوتا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ آج گوانتانامو کی شکل میں سینکڑوں خفیہ عقوبت خانے جدید یورپ سمیت دنیا بھر میں موجود ہیں۔جب کہ یہی ترقی یافتہ ممالک انسانی حقوق کی قوالیاں کرتے نہیں تھکتے اور پاکستان میں بھی انسانی حقوق کے علمبرداروں کو تنخواہوں پر ملازم رکھا ہوا ہے ۔ اسی درمیان میڈیا کے سیاست او رملکی معاملات میں بڑھتے ہوئے اثر ورسوخ کو دیکھ کر کچھ سیاستدان اور سرمایہ دار بھی اس کھیل میں کود پڑے ہیں ۔حالیہ دنوں میں پاکستان میں وجود میں آنے والے نئے الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ میڈیا میں ایک خوفناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ہر کسی نے یہ تصور کر لیا ہے کہ پاکستان میں اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے کسی میڈیا گروپ کا مالک ہونا ضروری ہے۔ بدقسمتی سے میڈیا میں موجود صحافتی فرعونوں کے رویے کی وجہ سے پاکستان میں ایک دوسرا طبقہ پیدا ہو ا ہے جس نے اپنا نام ”سوشل میڈیا“رکھا ہے۔اس سوشل میڈیا میں مصر، الجزائر،تیونس، بحرین ،یورپ اور ساﺅتھ امریکہ میں حیرت انگیز نتائج دیئے ہیںاور پھر بھلا پاکستانی اس دوڑ میں کیسے پیچھے رہ سکتے تھے؟31اکتوبر2011ءکو مینار پاکستان پر عمران خان کا پہلا جلسہ اسی سوشل میڈیا کے پرستاروں کا ایک کامیاب شو تھا۔دوسری طرف شریف برادران نے جب سوشل میڈیا کی یلغار کو بھانپ کر اس کے نتائج اور اثرات کو محسوس کیا تو وہ خود بھی کاﺅنٹراٹیک کے لیے سوشل میڈیا کے میدان میں کود پڑے ۔عمران کی سوشل میڈیا ٹیم کو شیریں مزاری ،اسد عمر اور فوزیہ قصوری کی رہنمائی حاصل تھی۔ جبکہ میاں برادران کی طرف سے ان کی ذہین بیٹی مریم نواز شریف نے اس چیلنج کو اپنے ہاتھ میں لیااور پھر دو سوشل میڈیا گروپوں کے درمیان ایک ایسی جنگ کا آغاز ہوا جس کے نتائج 11مئی کی شام کے بعد آنا شروع ہوئے۔ یہ سوشل میڈیا جنگ آج بھی اپنی آب و تاب کے ساتھ جاری ہے۔کوئی بھی فریق کسی بھی صورت میں پیچھے ہٹنے یا شکست ماننے کو تیار نہیں۔ماضی میں بھی شہید ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے خلاف سوشل میڈیا کے اس وقت کے وسائل کے مطابق جنگ جاری تھی۔جبکہ آج ایڈوانس ہائی ٹیک کی وجہ سے یہ سوشل میڈیا وار ہر گھر میں لڑی جا رہی ہے۔سوشل میڈیا اور میڈیا میں فرق صرف یہ ہے کہ صحافی ایک ادارے کی پالیسیوں کے پابند ہوتے ہیں اور وہ اپنی رپورٹ کی ہوئی خبر یا ڈاکومنٹری کے ذمہ دار اور جوابدہ بھی ہوتے ہیںاور یہی الیکٹرانک میڈیا اور پرنٹ کی کریبلٹی ہے کہ آپ اس کو بطور ریفرنس کہیں بھی کوٹ کر سکتے ہیں۔جبکہ سوشل میڈیا میں چلنے والی خبریں اور مواد کو آپ اس لیے ریفرنس کے طور پر پیش نہیں کر سکتے کہ اس کے خالق کا کچھ پتہ نہیں ہوتا اور یہ بھی پتہ نہیں ہوتا کہ کس ویڈیو میں کسی کے جسم پر کسی اورکا چہرہ لگا کر ویڈیو تیار کی گئی ہے۔اسی طرح سوشل میڈیا پر چلنے والی پراپیگنڈہ مہم کی کریبلٹی کو ہمیشہ شک کی نظر سے دیکھا گیا ہے۔پاکستا ن میں جب تک میچور اور پڑھا لکھا طبقہ بشمول صحافی حضرات اپنے فرائض کو نہیں پہچانیں گے تب تک سوشل میڈیا اور غیرجانبدار میڈیا کے درمیان اس جنگ سے وطن عزیز کی بنیادیں مزید کھوکھلی ہوتی رہیں گی۔