”خیالی کرکٹ“

”خیالی کرکٹ“

چیمپئنز ٹرافی میں قومی کرکٹ ٹیم نے جو ”گُل“ کھلائے ہیں انہوں نے وسیم اکرم کو بھی بولنے پر مجبور کر دیا ہے۔ سابق پاکستانی کپتان نے کرکٹ ٹیم میں آپریشن ”کلین اپ“ کا مشورہ مفت میں دیا ہے۔ حالانکہ ان دنوں وہ کوئی کام بھی ”مفت“ میں نہیں کرتے۔ ”ٹکڑوں“ میں لڑکوں کی ولایت سے وطن واپسی کے بعد ہماری خواتین کرکٹ ٹیم نے برطانیہ کی اڑان بھری ہے۔ لڑکیوں نے وہاں دو ون ڈے اور دو 20، 20 کھیلنے کے ساتھ ساتھ آئی سی سی ورلڈ ٹونٹی، ٹونٹی کوالیفائرز میں بھی شرکت کرنی ہے۔ جہاں ”ثنا میر اینڈ کمپنی“ کا سری لنکا اور آئرلینڈ سے مقابلہ ہو گا۔ ان مقابلوں کی تیاری کے لئے مریدکے میں تربیتی کیمپ کا بھی انعقاد کیا گیا تھا۔ جو جماعت الدعوة کے کیمپ کے باعث خطرناک علاقہ ہے جس پر بھارت سرجیکل سٹرائیک کی بھی دھمکی دے چکا ہے جہاں بیٹنگ کے شعبے پر خاص توجہ دی گئی ہے۔ ہمارے بچپن کے دوست ماجد حسین نے کہا ہے کہ خواتین ٹیم کے بیٹنگ کنسلٹنٹ سابق ٹیسٹ کرکٹر باسط علی نے جب سے کرکٹ بورڈ کی عینک پہنی ہے انہیں خواتین کرکٹرز میں اچھا ٹیلنٹ اور بہتری نظر آنے لگی ہے اور مختصر وقت میں خواتین کرکٹ ٹیم کی یہ ایک بڑی کامیابی ہے۔
واہ جی واہ! اب یہ دن بھی دیکھنا نصیب ہوا کہ مردوں کی خود ساختہ ”کامیابی“ کے بعد خواتین کی کرکٹ ٹیم برطانیہ کے دورے پر ہے۔ تاریخی بات ہے، راجا داہر نے ایک خاتون کو ہراساں کیا تو اُس نے مدد کے لئے محمد بن قاسم کو پکارا یہاں معاملہ الٹ ہے لڑکے مار کھا کے، سر چھپا کے اور آنکھیں جھکا کے آئے ہیں تو لڑکیاں ان کا انتقام لینے جا رہی ہیں یعنی ہمارے کاغذی شیروں کا بدلہ لینے شیرنیاں گوروں کے دیس میں جا پہنچیں۔ دیکھیں اب ہوتا کیا ہے؟ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ ہماری خواتین تلواروں کی بجائے میک اپ کا سامان لے کر گئی ہوں گی۔ یہ واحد آئٹم ہے جس پر شیر حکومت نے ٹیکس نہیں لگایا۔
ایک خاتون کھلاڑی جو ٹیم کا حصہ نہیں ہے۔ ہمارے رابطہ کرنے پر اس نے ہمیں ایسے دوروں سے قبل کھلاڑیوں کی باہمی گفتگو کی خبر دی ہے۔ یہ سابق کھلاڑی بتاتی ہے کہ ہر ایسے دورے سے قبل تربیتی کیمپ میں لڑکیاں محنت تو بہت کرتی ہیں۔ جتنا وقت وہ محنت کرتی ہیں، فزیکل فٹنس کو بہتر بنانے، کھیل میں نکھار لانے،غلطیوں کو سدھارنے اور صلاحیتوں میں اضافے کے لئے، کم و بیش اتنا ہی وقت وہ خیالی پلاﺅ میں بھی صرف کرتی ہیں۔ اگر کوئی لڑکی بیٹنگ کے شعبے سے ہے تو وہ نیٹ پریکٹس کے بعد خیالوں میں کھو جاتی ہے کہ جیسے اس نے نیٹ پریکٹس کرتے ہوئے زور زور سے شاٹس کھیلی ہیں۔ یقیناً یہ عمل وہ وہاں بھی دہرائے گی۔ وہ خیالوں میں ہی خود کو برطانیہ، انڈیا اور جنوبی افریقہ کی درگت بناتے دیکھتی ہے۔ ایسے ہی باﺅلر بھی یہی محسوس کرتی ہے کہ وہ میچ میں بھی مخالف کھلاڑیوں کی وکٹیں ایسے ہی اڑائے گی اور ایسے یارکرز اور باﺅنسرز کروائے گی کہ ”گوریوں“ کا سانس رک جائے گا۔ یہی منصوبہ بندی کرتے کرتے لڑکیاں میدان میں جاتی ہیں تو جو ہوتا ہے وہ خلاف توقع ہوتا ہے۔ نا تو رنز بنتے ہیں، نہ وکٹیں گرتی ہیں، نہ گیند ہاتھ میں آتا ہے۔ سارے خواب دھڑام ہو جاتے ہیں۔ اس خاتون کرکٹر کا کہنا تھا کہ پھر بھی لڑکیوں کی ہمت ہمالیہ جیسی بلند ہے ورنہ ایسے ملک میں جہاں لڑکیوں کے کھیلنے کیلئے الگ گراﺅنڈ نہ ہو، سہولتیں اتنی وافر ہیں جیسے لوڈ شیڈنگ، پورے کیرئیر میں اتنے میچ کھیلنے کو ملتے ہیں جتنے لڑکے ایک سال میں کھیل جاتے ہیں۔ یہ بتاتے ہوئے خاتون کرکٹر جذباتی ہوئی، آنکھوں سے آنسو رواں ہوئے تو ہم نے اسے حوصلہ دیا اور اسکا غم ہلکا کرنے کے لئے متعلقہ حکام کو خوب برا بھلا کہا تو وہ نارمل ہو گئی۔ بات پھر لڑکیوں کی کارکردگی اور خیالی کرکٹ پر چلی گئی تو اس نے اپنی ساتھی کھلاڑیوں کا دفاع کرتے ہوئے کہا دیکھیں جی جیسا بھی ہے۔ ہماری لڑکیاں لڑکوں سے بہتر ہیں اور بہت سے مسائل سے بچی ہوئی ہیں۔ ان کی کارکردگی انگلینڈ میں لڑکوں سے تو بہت بہتر ہو گی کیونکہ ٹیم میں نہ تو کیچ چھوڑنے والی عالمی شہرت یافتہ کھلاڑی ہے، نہ ہی شعیب ملک جیسی کوئی سفارشی، نہ ہی عمران فرحت جیسی عزیز داری کی بنیاد پر کھیلنے والی ہے اور نہ ہی حفیظ جیسی کرکٹ کی نام نہاد پروفیسر، ہاں اور سب سے بڑھ کر ہمارے پاس کوئی غیر ملکی ڈیو واٹمور بھی نہیں ہے کہ ہم تمام میچز ہی ہار جائیں۔ ہماری بھی دعا ہے کہ لڑکیاں اس مرتبہ برطانیہ میں خوابوں والی کرکٹ حقیقت میں کھیلیں۔
لگے ہاتھوں مشورہ دئیے دیتے ہیں کہ اگر دورے کے دوران تھوڑا وقت مل جائے تو ساری کھلاڑیوں کو چاہئے کہ برطانیہ سے خصوصی ”بیوٹیشن کورسز“ اور ”کوکنگ کورسز“ کرتی آئیں تاکہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ اسے کہتے ہیں آم کے آم گٹھلیوں کے دام۔ کرکٹ بھی کھیل لی جائے اور گھر داری میں بھی مہارت حاصل ہو گی۔

ای پیپر دی نیشن