حکومت لاپتہ افراد کے بارے میں اپنا پلان پیش کرے،سپریم کورٹ

اسلام آباد(اے پی اے ) سپریم کورٹ نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے حکومتی پلان کے بارے میں دریافت کیا ہے، جس کی تفصیلات یکم جولائی تک جمع کرائے جانے کی توقع ہے۔امکان ہے کہ اٹارنی جنرل منیر اے ملک لاپتہ افراد کے مقدمات کے حوالے سے سپریم کورٹ کو جامع منصوبہ پیش کریں گے، جس کے تحت اٹارنی جنرل کے آفس میں ایک خصوصی سیل قائم کردیا گیا ہے۔ یہ سیل لاپتہ افراد کے مقدمات کے سلسلے میں عدالتی احکامات پر عملدرآمد کو یقینی بنائے گا۔جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں تین ججز پر مشتمل ایک بینچ نے لاپتہ افراد کے معاملے میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام کے خلاف مقدمات درج نہ کیے جانے پر عدم اطمینان کا اظہار کیا۔جسٹس جواد خواجہ نے جبری طور پر لاپتہ افراد کے حوالے سے انکوائری کمیشن (سی آئی ای ڈی )کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر حکومت اس کمیشن کے فیصلوں پر عملدرآمد کرنا نہیں چاہتی ہے، تو ا±سے یہ انکوائری کمیشن تحلیل کردینا چاہئیے۔میڈیا کی رپورٹس کے مطابق جبری طور پر لاپتہ افراد کے حوالے سے انکوائری کمیشن (سی آئی ای ڈی) نے انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلی جنس بیورو، فرنٹیئر کور، فرنٹیئر کانسٹبلری اور پولیس کے محکمے میں خدمات انجام دینے والے 117 عہدیداروں کے خلاف فوجداری مقدمات دائر کرنے کی سفارش کی ہے۔انہی میں سے ایک محمد جمیل بھی شامل ہیں، جو 2011ء میں پ±راسرار طریقے سے لاپتہ ہوگئے تھے، جمعرات کو سپریم کورٹ کو مطلع کیا گیا کہ سی آئی ای ڈی نے راولپنڈی پولیس کو سفارش کی تھی کی وہ خفیہ اداروں کے حکام کے خلاف دو ہفتوں کے اندر مقدمہ درج کریں۔ اس کے پاس کافی مواد موجود تھا کہ محمد جمیل کو انٹیلی جنس اداروں نے ا±ٹھایا ہے۔عدالت نے پولیس کو ہدایت کی تھی کہ 28 مئی کو محمد جمیل کے لیے ایک پروڈکشن آرڈر آئی ایس آئی اور ملٹری انٹیلی جنس کے ڈائریکٹوریٹ جنرل کے نام جاری کیا جائے۔اسی طرح ایک اور لاپتہ فرد نوید رحمان کے مقدمے میں بینچ کو مطلع کیا گیا تھا کہ مذکورہ کمیشن نے دس جون کو وزارت داخلہ کو سفارش کی تھی کہ وہ دو ہفتوں کے اندر اندرکچھ حاضر سروس فوجی افسروں کے خلاف ایک مقدمہ درج کرے۔گیارہ جون کو ملٹری انٹیلی جنس نے اپنا جواب داخل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ آرمی ایکٹ 1952ءکے تحت کوئی بھی عدالت اور پولیس کے یہ دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ کسی بھی حاضر سروس فوجی افسر کے خلاف کارروائی کر سکے۔توقع ہے کہ عدالت اگلے ہفتے ملٹری انٹیلی جنس کے جواب پر غور کرے گی۔

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...