انقلاب یا ”دمادم مست قلندر“۔۔۔؟

وزیراعظم نوازشریف کہتے ہیں کہ انقلاب صرف الیکشن کے ذریعے آئے گا، نکمے ایجنڈے والوں کا مل کر مقابلہ کرینگے جبکہ علامہ طاہرالقادری کہہ رہے ہیں کہ انقلاب آ کر رہے گا۔ سیاسی یتیم چوہدری برادران انقلاب کی بھڑکیں لگاتے ہوئے پولیس تک کو احکامات جاری کرنے لگے ہیں اور تو اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کرتے ہوئے اسمبلیوں سے استعفے تک دینے اور پہلے خیبر پی کے اسمبلی توڑنے کی بھی دھمکی دے ڈالی ہے۔ عمران خان کے اس بیان پر خیبر پی کے کی صوبائی اسمبلی سے اپوزیشن نے واک آ¶ٹ کرتے ہوئے بھرپور احتجاج کیا تو عمران خان نے کہہ ڈالا کہ مطالبات نہ مانے گئے تو قومی اسمبلی سے استعفوں کا آپشن کھلا ہے۔ پیپلزپارٹی کے حلقوں کی طرف سے کہا جانے لگا ہے کہ حکومت کیخلاف گرینڈ الائنس بننے جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کے معرض وجود میں آنے سے پہلے ہی جب پیپلزپارٹی کے صدر مملکت آصف علی زرداری مشرف کے حوالے سے جمہوریت کو بہترین انتقام قرار دے چکے تھے اور گیارہ مئی 2013ءکے انتخابات سے پہلے پرویزمشرف ملک میں واپس آ چکے تھے۔ پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں کے درمیان میثاق جمہوریت کا معاہدہ اٹھارہ فروری 2008ءکے انتخابات سے پہلے ہی لندن میں طے پا چکا تھا جس کے بعد مسلم لیگ(ن) جب 2008ءمیں قائم ہونے والی وفاقی حکومت کی کابینہ سے بھی باہر آ گئے ہیں تو مسلم لیگ(ن) پر مسلسل فرینڈلی اپوزیشن کا طعنہ لگتا رہا جس پر مسلم لیگ(ن) کے اپنے اراکین اسمبلی کے اصرار، تشویش اور عوامی مطالبات اور احتجاج پر بھی نوازشریف کہتے رہے کہ جمہوریت کی بالادستی اور مضبوط فراوانی کے لئے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس کے برعکس اسی دورانیے میں پیپلزپارٹی ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ لگا کر مفاہمت کے نام پر اپنی جماعت کے نظریات سے الٹ چلنے والی سیاسی جماعتوں کو بھی ساتھ لے کر چلتی رہی۔ حتیٰ کہ مسلم لیگ(ق) جسے خود آصف علی زرداری نے قاتل لیگ کا نام دیا تھا اسے ایک موقع پر وفاقی حکومت کا حصہ بنا کر مفاہمتی پالیسی کے تحت حکومت کے پانچ سال پورے کروا لئے گئے۔ یہ سارا کچھ ملکی تاریخ میں ایک نیا سیاسی تجربہ تھا کیونکہ عوام اور خود سیاست دان سیاسی ماردھاڑ اور حکومتوں کو گرا کر اپنا سیاسی قدکاٹھ بڑھانے کے عادی تھے اور یہی ہماری سیاست کا طرزعمل جاری ہے بھی کہ عوام کی اکثریت چٹ پٹی سیاست کی خواہاں ہے جس میں ایک دوسرے کے کردار کشی کی جائے اور ایک حکومت جائے اور دوسری آنیوالی حکومت سابقہ حکومت کو مختلف سیاسی مقدمات میں الجھا کر خوب رگڑا لگائے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پیپلزپارٹی کے دور اقتدار کے دوران خوب کرپشن ہوئی مگر جو بدلا¶ موجودہ حکومت کے دوردورہ میں بھی نظر آ رہا ہے اسکی بنیادی وجہ وہ بلا ہے جس کی طرف آصف علی زرداری نے گڑھی خدابخش میں اپنی تقریر کے دوران اشارہ کر دیا تھا۔ اسی پالیسی کے تحت پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ(ن) دونوں ملک کی بڑی جماعتیں چل رہی ہیں اور ان کا مقصد ہے کہ جمہوریت کو پٹڑی سے اترنے نہ دیا جائے اور کسی کو بھی ایسی اجازت یا راستہ نہ دیا جائے کہ آمریت کی راہ ہموار ہو سکے اور بلا رات کے اوقات میں آ کر دودھ پی جائے۔ یہ معاملہ پرویزمشرف کیخلاف آرٹیکل 6 کے تحت غداری کا مقدمہ شروع ہونے سے بہت زیادہ الجھ گیا۔ ایک تو حکومت اور ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات شروع ہو گئے، دوسرا اسٹیبلشمنٹ کو پرویز مشرف کے نام کے ساتھ غداری کا مقدمہ چلنے پر گہری تشویش ہونے لگی ۔
 شیخ رشید احمد نے چند ہفتے قبل جب پرویز مشرف کا نام ای سی ایل سے خارج کر دیا گیا تھا تو ایک صحافی کے سوال کے جواب میں بڑی اہم بات کہی تھی کہ اگر حکومت ای سی ایل سے نام خارج ہونے پر اپیل میں گئی تو اس کی خود چھٹی ہو جائیگی۔ گویا جمہوری دائروں کے اندر رہنے والے اراکین اسمبلی بھی چاہے وہ حکومت کے حامی ہوں یا مخالف، یہ بات جانتے ہیں کہ کوئی بھی حکومت مکمل طور پر خودمختاری کے تحت جمہوری انداز میں نہیں چل سکتی۔ اس وقت اصل مسئلہ جمہوریت کا چل رہا ہے اور یہ جو ہم طاہرالقادری، چوہدری برادران اور کسی حد تک تحریک انصاف کا احتجاجی ٹرائل دیکھ رہے ہیں اسکی کڑیاں ایسے ہی معاملات سے ملتی ہیں کیونکہ کون نہیں جانتا کہ آمریت نے ہمیشہ جمہوریت کی کوکھ سے ہی جنم لیا ہے اور سیاست دان خود اقتدار کے ایوانوں سے نکل کر ”ٹا¶ٹی“ کا کردار کرتے ہیں جس کے نتیجے میں انقلاب تو نہیں آتا مگر ہر کوئی انقلاب زندہ باد کے نعرے لگانے پر مجبور ہو جاتا ہے۔ دراصل وقت رواں میں جمہوریت اور جمہوریت مخالف سیاسی جماعتوں کے درمیان احتجاج، کھینچاتانی کی کشمکش چل رہی ہے جسے گرینڈالائنس اور تحریک کی شکل دینے کی پوری سعی کی جا رہی ہے۔ ان حالات میں کیا وہ تمام لوگ جو پرویزمشرف کو آئین توڑنے پر عبرت کا نشان بنا کر جمہوریت کی مضبوطی کی باتیں کرتے تھے، وہ جو کردار ادا کر رہے ہیں کسی طور پر لائق تحسین ہے۔ ایک بات پورے وثوق کے ساتھ ذہن نشین کرلی جائے کہ داخلی و خارجی اور دفاعی معاملات کو ان ایشوز سے نتھی کرنا کسی طور پر مناسب نہیں۔ ہم ایک ترقی پذیر ملک میں جمہوری سفر کو تیز تر کر کے جمہوری مضبوطی کی بات کرتے ہیں اور اس کا سب سے اولین تقاضا یہی ہے کہ آئین سازی اور مختلف قوانین کو مرتب کر کے چور، ڈاکو¶ں اور غاصبوں کو بھی آئین کے دائروں کو اس قدر جکڑ لیا جائے کہ وہ اپنے مخصوص مفادات اور کرپشن کی دیوی کی پوجا نہ کر سکیں۔ اس کیلئے سب سے اول شرط جمہوریت کی مضبوطی اور روانی ہے لیکن افسوس اسمبلی کے اندر موجود ایک ٹولہ اور اسمبلی سے باہر نام نہاد اپوزیشن کی جماعتیں جمہوریت کے خلاف برسرپیکار ہیں، عوام کو حقائق سے آگاہ نہیں کیا جا رہا، یکطرفہ تصویر دکھائی جا رہی ہے اور پاکستان جو کہ حالت جنگ میں ہے اس عظیم تر مملکت خداداد میں سیاسی جماعتوں کے مابین ایک ایسا ٹکرا¶ کروانے کی سازشیں اپنے پورے جوبن پر ہیں جو اگر کامیاب ہو گئیں تو انقلاب دور دور تک نظر نہیں آتا البتہ ایک تباہی ہمارے در پر دستک دینے کیلئے کھڑی ہے اس لئے عوام فیصلہ کر لیں کہ انقلاب الیکشن کے ذریعے لانا ہے یا پھر سڑکوں پر دمادم مست قلندر کر کے!!

ای پیپر دی نیشن