ڈسکہ کے نواحی گائوں ستراہ میں پسند کی شادی کرنے پر نوبیاہتا جوڑے کو اغوا کر کے سرعام سر قلم کر دئیے گئے۔ سفاک قاتل لڑکے اور لڑکی کے سروں کو ٹھوکریں مارتے رہے۔
اسلام لڑکی کو پسند کی شادی کرنے کا اختیار دیتا ہے لیکن زمانہ جہالت کے رسوم و رواج رکھنے والے خاندان عورت کو اس کا حق نہیں دیتے۔ بالفرض اگر لڑکی نے لو میرج کر ہی لی تھی تو اس کے ساتھ ایسا سفاکانہ رویہ کیوں اختیار کیا گیا۔ پولیس خاموش، خادمِ اعلیٰ خاموش جبکہ عافیہ کنول کی روح پکار رہی ہے کہ مجھے بتائو تو سہی کس جرم میں قتل کیا گیا۔ پولیس آخر کس مرض کی دوا ہے؟ اسے بنانے کا مقصد تو جرائم کا خاتمہ تھا۔ ڈسکہ کے نواحی گائوں کی خبر میڈیا تک پہنچ گئی لیکن ڈی پی او اور خادم پنجاب کے کان تک نہیں پہنچی۔ پنجاب میں لڑکیوں کے قتل کی وارداتیں بہت بڑھ چکی ہیں۔ خادم پنجاب لاشوں پر پیسے دینے کیلئے پہنچ جاتے ہیں لیکن قبل از وقت انتظامات نہیں کرتے۔ والدین بعد میں غصہ نکالنے کی بجائے شروع سے اپنے بچوں کی تربیت ہی اسلامی خطوط پر کریں۔ اگر بچوں کی تربیت اسلام کے مطابق ہو گی تو ایسے واقعات رونما ہی نہیں ہونگے۔ والدین بھی اپنے بچوں کی خواہشات کا احساس کریں، شادی کے معاملات میں بچوں کی رائے کو ترجیح دی جائے۔ حکومت بھی اس سلسلے میں قانون سازی کرے تاکہ شب و روز اس بنا پر قتل کا سلسلہ ختم ہو سکے۔ آخری اطلاعات تک خادم پنجاب نے پسند کی شادی کرنے والوں کے قتل کا نوٹس لے لیا ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ وہ ملزموں کو کیفرکردارتک پہنچانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔انہیں چاہئے کہ ملزموں کو عبرت کا نشان بنادیں تاکہ آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو۔
ڈسکہ میں سفاکانہ دوہرا قتل
Jun 29, 2014