”فکر ناٹ“ والے مشورے

Jun 29, 2016

نصرت جاوید

جی ہاں آپ سے وعدہ کررکھاہے کہ ہماری وزارتِ خارجہ اور قومی سلامتی سے متعلق اداروں کے بہت سارے تگڑے اور بااثر لوگوں کی نظر میں عالمی امور کے ضمن میں حکیمِ حاذق گردانے جناب منیر اکرم صاحب نے حال ہی میں پاکستان کو نام نہاد ”عالمی تنہائی“ سے نجات پانے کے لئے انگریزی کے ایک معاصر میں اتوار کے روز جو مضمون لکھا ہے، اس کی تلخیص وترجمہ پیش کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ یہ کالم لکھتے ہوئے یہی وعدہ نبھانا ہوگا۔

عاجزانہ انداز میں حکیمِ حاذق نے نسخے کی ”تلخیص وترجمہ“ کی ترکیب میں نے جان بوجھ کر استعمال کی ہے۔ وزارتِ خارجہ کے بابو اور قومی سلامتی کو یقینی بنانے کے دعوے دار ”دوٹکے کے رپورٹروں“ کو تجزیے کرنے کے قابل نہیں سمجھتے۔
پیر کی دوپہر مشیر خارجہ جناب سرتاج عزیز صاحب نے پاکستان کے خارجہ معاملات کے بارے میں ایک طویل بریفنگ کی۔ اس بریفنگ کے لئے مدعو کرنے والوں کو بہت پُرجوش انداز میں بارہا یہ بتایا گیا تھا کہ صرف ”سینئر مدیروں اور خارجہ امور کی خوب سمجھ رکھنے والے“ اینکر خواتین وحضرات کو اس بریفنگ کے لئے مدعو کیا گیا ہے۔
دُنیا بھر میں ”حساس“ معاملات کو لکھاریوں کے ساتھ زیر بحث لانے کے لئے جو ملاقاتیں ہوتی ہیں وہ ہمیشہ ”آف دی ریکارڈ“ ہوتی ہیں۔ ان ملاقاتوں میں حکومتی اہلکار صحافیوں کو بہت کچھ بتاتے ہیں۔ جو معلومات فراہم کی جاتی ہیں ان کے لئے "Deep Background"کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔ مطلب اس اصطلاح کا یہ ہے کہ حکومتی اہلکار جو معلومات صحافیوں کو فراہم کررہے ہیںانہیں فوری طورپر ٹی وی Tickersکے ذریعے دُنیا کے سامنے نہ لایا جائے۔ ان معلومات کو اپنے ذہن میں رکھتے ہوئے آنے والے دنوں میں وزارتِ خارجہ نے جو بھی اقدامات اٹھانا ہیں انہیں سمجھنے کی کوشش کی جائے۔
سرتاج عزیز صاحب کی ”صرف سینئر مدیروں اور خارجہ امور کی خوب سمجھ بوجھ رکھنے والے“ اینکر خواتین وحضرات کے لئے بڑے اہتمام کے ساتھ کروائی بریفنگ کے فوراََ بعد مگر اس ملاقات میں ہوئی اکثر باتیں ٹی وی Tickersکی صورت دُنیا کے سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ اس ملاقات میں چند ”سینئر مدیر“ سرتاج صاحب سے کرید کرید کر یہ بھی پوچھتے رہے کہ حال ہی میں جی ایچ کیو میں عسکری اور سیاسی قیادت کے مابین جو ملاقاتیں ہوئی تھی، کیا واقعی اس کی تجویز مشیر خارجہ نے دی تھی اور سیاسی قیادت کو ”طلب“ وغیرہ نہیں کیا گیا تھا۔ چلتے چلتے یہ بھی عرض کردوں کہ مشیرِ خارجہ کی جانب سے جی ایچ کیو میں ہوئی ملاقات کی تجویز والی خبر دینے کا گناہ مجھ بدنصیب کے ہاتھوں سرزد ہوا تھا اور بہت سے دوستوں کو اس خبر کی تردید درکار تھی۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ ہم حکیمِ حاذق کے نسخے کی جانب لوٹتے ہیں۔
عالی مرتبت منیر اکرم صاحب نے اپنے نسخے کو بیان کرنے سے پہلے جو تمہید باندھی اس میں تاثر یہ پھیلانے کی کوشش کی کہ پاکستان اگر عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت بن پایا تواس کی راہ میں ممکنہ طورپر آنے والی رکاوٹوں کو صرف وزارتِ خارجہ کے ذہین وفطین افسروں نے ہی وقت سے کہیں پہلے سوچ کر ان کا توڑ ڈھونڈ نکالا تھا۔ اس ضمن میں حکیمِ حاذق نے خاص طورپر ذکر جناب آغا شاہی اور اقبال اخوند کا کیا اور ایسا کرتے ہوئے بڑی سفاکی کے ساتھ یہ بتانا بھول گئے کہ ان دونوں کی رہ نمائی کو وزیر خارجہ کو ن تھا۔ بڑھاپے نے اگر حکیمِ حاذق کی یادداشت ذرا کمزور کردی ہے تو یہ بات یاد دلانے میں کوئی مضائقہ نہیں کہ ان دنوں وزارتِ خارجہ کا منصب ذوالفقار علی بھٹو نام کے ایک شخص کے پاس ہوا کرتا تھا جو اتفاق سے ہماری تاریخ کے بہت طاقتور وزیر اعظم بھی ہوا کرتے تھے۔
بھٹو نے سقوطِ ڈھاکہ کے فوری اور اقتدار سنبھالتے ہی یہ بھانپ لیا تھا کہ بھارت جنوبی ایشیاءمیں اپنی برتری قائم کرنے کے لئے اب ایٹمی قوت بننے والا ہے۔ پاکستان کے ایٹمی سیاست دانوں اور وزارتِ خارجہ کے افسران کو لہذا انہوں نے ملتان ایک خفیہ اجلاس کے لئے بلایا اور اس اجلاس کے بعد پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے کے مشن پر جت گئے۔ 1974ءمیں جب بالآخر اندرا گاندھی کی حکومت نے ایٹمی دھماکہ کر ہی دیا تو بھٹو نے برملا کہا کہ وہ پاکستان کو بھی ایٹمی ملک بناکر رہیں گے چاہے اس کے لئے قوم کو گھاس ہی کھانا پڑے۔
فرانس سے ایٹمی ری پروسسنگ پلانٹ لینے کا معاہدہ بھی اسی بدنصیب ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔ بھٹو کو خوب علم تھا کہ امریکہ فرانس کو یہ پروسسنگ پلانٹ دینے سے ہر صورت روکے گا۔ لہذا ڈاکٹر قدیر سے خفیہ ملاقاتیں ہوئیں اور انہیں نہایت خاموشی سے کہوٹہ میں ایٹمی ری ایکٹر بنانے کے مشن پر لگادیا گیا۔
حکیمِ حاذق نے بھٹو کا ذکر تو نہیں کیا مگر ڈاکٹر قدیر کا تذکرہ بھی مشرف کے دورمیں اچھالے اس "Affair"کے تناظر میںکیا جس کے ذریعے پاکستان کو ایران اور لیبیا جیسے ”خطرناک“ مسلم ممالک کو ایٹمی توانائی ”بیچنے“ کا الزام لگایا گیا تھا۔ حکیمِ حاذق اس "Affair"کی روشنی میں بھی اگرچہ پاکستان کو ”فکرناٹ“ والے مشورے دیتے پائے گئے۔
ان کا دیانسخہ تقاضہ کرتا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی پروگرام کے بارے میں (Defensive)جس کا مطلب دفاعی یا معذرت خواہانہ ہوسکتا ہے Modeسے باہر آجائے۔ معذرت خواہانہ رویے سے نجات پانے کے بعد پاکستان اقوام متحدہ کی وساطت سے جنوبی ایشیاءکو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک خطہ بنانے کی جدوجہد میں مصروف ہوجائے۔ منیر اکرم صاحب چونکہ خود بھی کئی برسوں تک اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب رہے ہیں اور ریٹائرمنٹ کے بعد ہی اسی شہر کے قرب وجوار میں مقیم ہیں لہذا اقوام متحدہ میں پاکستان کی ان دنوں مندوب مقررہوئی ڈاکٹر ملیحہ لودھی ان سے مستقل رہ نمائی حاصل کرسکتی ہیں۔
یہ سب کرنے کے ساتھ ہی ساتھ منیر اکرم صاحب کا نسخہ یہ تقاضہ بھی کرتا ہے کہ بجائے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت کی بھیک مانگنے کے، پاکستان کو ایران اور سعودی عرب کے علاوہ دیگر مسلمان اور ترقی پذیر ممالک کو ایٹمی تعاون فراہم کرنے کی پیش کش کردینا چاہیے۔ ہماری جانب سے ایسی پیش کش سامنے آنے کے بعد NSGوالے حواس باختہ ہوکر ہمیں خود بخود اس گروپ کی رکنیت دینے کو بے چین ہوجائیں گے۔
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی دانستہ طورپر ایک نامکمل اور ایک حوالے سے دانشوارانہ بددیانتی پر مشتمل ”تاریخ“ لکھنے کے بعد حکیمِ حاذق کا اختراعی خیالات سے اُبلتا ذہن ہی موجودہ عالمی تناظر کو خوب سمجھتے ہوئے بھی یہ تجویز دے سکتا ہے کہ پاکستان بیک وقت سعودی عرب اور ایران کے ساتھ ”ایٹمی تعاون“ کی راہ بناسکتا ہے۔ ان کی یہ تجویز آنے کے بعد آگے لکھوں تو کیا لکھوں۔ سوائے اس کے کہ حکیمِ حاذق جیسے لوگوں نے بھاری بھر کم تنخواہوں اور مراعات پر اس ملک کی بہت ”خدمت“ کرلی ہے۔اب نت نئے نسخے لکھ کر ”نیک پاک اور ٹیکنوکریٹ لوگوں“ پر مشتمل کسی ممکنہ حکومت میں مزید نوکریاں ”پکی کرنے کی“ کوشش ترک کردیں۔ ریٹائر ہوکر گالف وغیرہ بھی تو کھیلی جاسکتی ہے۔

مزیدخبریں