کالا باغ ڈیم… افسانہ یا حقیقت!

مکرمی! روزنامہ نوائے وقت کو ڈھیروں سلام جس نے جناب ظفر محمود کے مذکورہ مضمون کو اپنے صفحات کی زینت بنایا، صاحب مضمون نے جس قلندرانہ آن بان شان کیساتھ کالا باغ ڈیم کے تاریک اور روشن پہلوئوں پر روشنی ڈالی وہ قابل تحسین ہے۔کالا باغ ڈیم کے تاریک پہلو آٹے میں نمک کے برابر ہیں اور اس کے مثبت پہلو پنجاب میں پانی کی بگڑتی حالت کو سنبھالا دینے کی خاطر ڈیم کی اہمیت ، افادیت اور فوری ضرورت پر کسی بھی باضمیر انسان کو انکار نہیں ہوسکتا۔ ناقدین ڈیم نے ایک ٹیکنیکل معاملے کو سیاسی رنگ میں تبدیل کرکے پاکستان کے مفادات پر ایک کلہاڑا چلایا ہے، سندھ کے وزیر تعلیم جناب نثار کھوڑو نے سندھ کی تقسیم پر جو منطق پیش کی وہ تو حقیقت کے قریب ترین ہے لیکن دریائے سندھ پر بھاشا ڈیم کی تعمیر تو ہوسکتی ہے لیکن کالا ڈیم کی کیوں نہیں۔ہمارا دشمن بھارت بعض سندھی وڈیروں اور پختون خواہ میں سرخ پوش لیڈروں پر اربوں، کھربوں روپوں کی سرمایہ کاری کررہا ہے اور یہی وہ لوگ ہیں جن کی آنکھوں پر طلائی پٹی کی دبیز تہہ جمی ہوئی ہے اور وہ قومی مفادات کو پائوں کی ٹھوکر لگاتے ہیں۔صاحب مضمون نے جس دل سوزی، جرأت اور حب الوطنی کے جذبات کا مظاہرہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ، صاحب مضمون نے 26 اقساط پر محیط مضمون پر بے حد کاوش کی اور مضمون کے آخر میں مسئلے کے حل کیلئے ممکن تجاویز بھی پیش کردی ہیں۔ اللہ صاحب مضمون کو صحت و تندرستی دے اور عمرخضرؑ سے نوازے۔ (طلحہ غازی، راوی بلاک اقبال ٹائون لاہور)

ای پیپر دی نیشن

میں نہ مانوں! 

خالدہ نازش میری سکول کی ایک دوست کو ڈائجسٹ پڑھنے کا بہت شوق تھا ، بلکہ نشہ تھا - نصاب کی کوئی کتاب وہ بے شک سکول بستے میں رکھنا ...