سخی یا کنجوس ؟

ہمارے دور شباب و شرارت سے لیکر دور شرافت و شائستگی تک سبھی احباب نے ایف ایس سی میں اول، دوم و سوم آنیوالے نوجوانوں کا انٹرویو سنا ہوگا وہ یہی تکرار تواتر سے کرتے رہتے ہیں کہ میں ڈاکٹر بن کر دُکھی انسانیت کی خدمت کرونگا، مگر خدا گواہ ہے میری زندگی میں سوائے ڈاکٹر آصف جاہ کے کسی نے سچ نہیں بولا وہی ہے جو بڑا افسر ہونے کے باوجود ملک کے کسی بھی کونے میں سیلاب جیسی آفت ناگہانی میں گردن تک پانی میں ڈوبا ہوکر بھی مریضوں کا علاج کررہا ہوتا ہے۔ اور دُوائیاں بھی مفت دے رہا ہوتا ہے، وہی ایک ڈاکٹر ہے جو اپنے آرام و راحت کو خیر باد کہہ کر اور اپنی میٹھی نیند اور آرام دہ بستر کو چھوڑ کر رب ذوالجلال کے فرمان کے مطابق بعض اوقات فوج سے بھی پہلے اپنی پوری ٹیم کیساتھ زلزلے میں کھسکتی زمین اور برستے پتھروں سے بے پرواہ ہوکر خدمت انسانیت میں مگن ہوکر پوری تسلی ، وانہماک سے مریضوں کو سر سے لیکر پائوں تک چیک کررہا ہوتا ہے، کبھی وہ تھر کے ریگستانوں اور کبھی بلوچستان کے اُن علاقوں میں جہاں پاکستان کا نام لینا گناہ سمجھاجاتا تھا نفرت، تعصب کی آگ میں کوئلے و انگارے کی چٹختے دلوں پہ پیار محبت، خلوص کی دھیمی دھیمی پھوار، مرہم کے پھائے کی طرح لگا کر ایسے دل جیت لیتا ہے کہ نعرہ تکبیر اور پاکستان زندہ باد کے نعرے لگوا کر ہلالی پرچم لہرادیتا ہے جس سے جگر لالہ میں ٹھنڈک ہو وہ شبنم یہی وجہ ہے کہ عبدالستار ایدھی کی طرح اندرون اور بیرون ملک لوگ ڈاکٹر آصف جاہ پر آنکھیں بند کرکے اعتبار کرتے ہیں کیونکہ ڈاکٹر آصف جاہ ایک ایسا ’’ کنجوس‘‘ شخص ہے کہ اپنی ذات پر ناجائز ایک پیسہ خرچ نہیں کرتا بلکہ اپنے رزق حلال میں سے بھی بچا کر دوسروں کی امداد کرکے لٹا دیتا ہے۔ ڈاکٹر آصف جاہ نیک تہجد گزار، شب بیدار بلکہ شب و روز بیدار کو جب ستارہ امتیاز ملا تو جنرل راحیل شریف تمام وقت ڈاکٹر صاحب کے ساتھ رہے۔ رمضان شریف نہ بھی ہو تو بھی ہمیں ڈاکٹر آصف کے ہاتھ مضبوط کرنے اور اپنی عاقبت سنوارنے کیلئے ان کی بھرپور مدد کرنی چاہیے، اللہ تبارک تعالیٰ پیسوں کی مقدار کو نہیں دیکھتا بلکہ نیت دیکھتا ہے، خواہ وہ سو روپیہ ہی کیوں نہ ہو، کیا ہم اس گرم ترین موسم میں تھر کے ریگستان میں جاکر حضرت عثمانؓ کے کنویں کے نام پر خود کھڑے ہوکر کنویں کھداسکتے ہیں، کیا ہم ٹھٹھرتی سردیوں میں، کوئٹہ، گلگت کی وادیوں میں جاکر مریضوں کی تیمارداری کرسکتے ہیں، یقینا یہ مشکل کام ہم نہیں کرسکتے تو پھر ہمارا جو بھائی یہ کام کررہا ہے، ہمیں اپنے اس محسن کا شکریہ ادا کرنا چاہیے ، رسول پاک ﷺ کا فرمان ہے کہ سخی بہشت سے قریب اور دوز خ سے بعید ہے، اور بخیل دوزخ سے قریب اور بہشت سے بعید ہے، حضرت علی ہجویریؒ نے خوبصورت بات کی ہے کہ بعض لوگ کہتے ہیں سخی سخاوت کرتے وقت اپنے برائے کی تمیز برقرار رکھتا ہے، اُس کی سخاوت دنیوی غرض کیوجہ سے ہوتی ہے یہ سخاوت کا ابتدائی مقام ہے مگر جو دو سخی سخاوت میں اپنے پرائے میں فرق نہیں کرتا اور اس کی سخاوت بے غرض ہوتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ کے دستر خوان پر جب تک مہمان نہ ہوتا وہ کھانا نہیں کھاتے تھے، ایک دفعہ تین دن تک مہمان نہ آیا، بالآخر ایک مہمان آیا آپ نے پوچھا تم کون ہو وہ بولا میں آتش پرست ہوں، آپ نے کہا تم چلے جائو تم اس قابل نہیں ہو ، اس بات پر عتاب ہوا اور اللہ نے فرمایا اے ابراہیم ہم نے ستر برس تک اُس کی پرورش کی تم سے اتنا بھی نہ ہوا کہ اُسے ایک وقت کی روٹی ہی کھلادیتے۔اس کے برعکس جب حاتم طائی کا بیٹا عدی رسول پاک ﷺ کے سامنے پیش ہوا تو حضورؐ نے اپنی چادر مبارک اُس کے لئے بچھادی بلکہ فرمایا کہ کسی قوم کا بھی سخی (صاحب کرم) شخص آئے تو اُس کی عزت و تکریم کیا کرو۔
کیا تم مسلمان کافروں سے بھی بدتر ہیں، ہم اتنے سخی بھی نہیں کہ اگر صدیق اکبرؓ کی طرح سارے گھر کا سامان حضورؐ کے قدموں پہ ڈھیر نہیں کرسکتے تو کیا ہم گھر کا کچھ سامان، کپڑے یا کچھ رقم حضور ؐ کی اُمت کی خدمت کیلئے حضور ؐ کے غلام ڈاکٹر آصف جاہ کو پیش نہیں کرسکتے یاد رکھیں امجد صابری شہید بھی ڈاکٹر آصف والا کام کرتے تھے کہ روزہ دار، سخت گرمی میں لاکھوں کی تعداد میں شریک جنازہ ہوئے، ہمارے اسلاف تو اعتکاف کے دسویں دن بھی اعتکاف چھوڑ کر دکھی شخص کے ساتھ چل پڑتے تھے۔ موجودہ دور میں دُکھی لوگوں کیساتھ چل پڑنے والے ڈاکٹر آصف جاہ کا رابطہ نمبر ہے 0333-4242691 ، قارئین آپ اگر کچھ پیسے نہیں دے سکتے تو کم از کم مرد مسلماں کو فون تو کرسکتے ہیں تاکہ آپ کا بھی پتہ چل سکے کہ آپ کنجوس ہیں یا سخی؟

ای پیپر دی نیشن