لاہور (خصوصی رپورٹر/ خصوصی نامہ نگار/ کامرس رپورٹر) پنجاب اسمبلی میں گزشتہ روز مالی سال 2015-16ء کے ضمنی بجٹ پر بحث کا آغاز ہو گیا اپوزیشن نے کئی محکموں میں اربوں روپے خرچ نہ کرنے کے باوجود منظور شدہ بجٹ سے تقریباً ڈیڑھ کھرب روپے زائد خرچ کئے جانے پر شدید تنقید کی ہے اور اسے حکومت کی فنانشل مس مینجمنٹ اور من مانی قرار دیا ہے جبکہ حکومتی ارکان نے ضمنی بجٹ کی مد میں ہونے والے اخراجات پر حکومت کو سپورٹ کیا۔ ضمنی بجٹ پر بحث آج مکمل کی جائے گی اور اس کی منظور بھی دی جائے گی۔ اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں تین خواتین سمیت صرف چار ارکان موجود تھے۔ بحث کا آغاز پی ٹی آئی کے شعیب صدیقی نے کیا اور بجٹ پر عام بحث میں اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید کی ساٹھ فیصد سے زائد تقریر دہرا دی جس کی سپیکر نے بار بار نشاندہی بھی کی۔ شعیب صدیقی نے کہا کہ ضمنی بجٹ کے اخراجات حکومت کی گڈ گورننس کی نفی کرتے ہیں اور یہ واضح ہوتا ہے کہ گڈ گورننس اور بچت کی دعویدار حکومت سالانہ ترقیاتی بجٹ مناسب انداز سے خرچ نہیں کر پائی بلکہ من پسندی پر عمل کیا لیکن کوئی میگا پراجیکٹ مکمل نہیں کیا۔ حکومتی رکن میاں محمد رفیق نے ضمنی بجٹ پر تنقید کرتے ہوئے کہا ضمنی بجٹ اچھی روایت نہیں لیکن حکومت عام طور پر اس کا سہارا لیا کرتی ہے انہوں نے وزیر اعلیٰ کے صاف پانی پراجیکٹ کی تعریف کی اور استفسار کیا کہ کیا یہ منصوبہ عوام کو بیماریوں سے بچالے گا؟ جبکہ جلدی بیماریاں عام ہوگئی ہیں جن کی اہم وجہ ماحولیاتی آلودگی ہے اور پینے کے صاف پانی کی عدم فراہم سمیت دیگر عوامل ہیں، اس لئے تحقیقات کرائی جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ محکمہ ماحولیات سفید ہاتھی بنا بیٹھا ہے، یوں لگتا ہے کہ مجھے شیشے کے بند ڈبوں والی گاڑی کی ضرورت پڑے گی اور وہ وقت بھی دور دکھائی نہیں دیتا جب عوام کو آکسیجن کے سلنڈر بھی دینا پڑیں گے۔ پی ٹی آئی کے اسلم اقبال نے حکومت کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ پنجاب حکومت کی ایڈہاک ازم پر پلاننگ کی جاتی ہے۔ انہوں نے بجٹ دستاویزات کا حوالہ دیکر بتایا کہ قومی اسمبلی کے حلقہ 122 کے ضمنی الیکشن کے موقع پر حکومت نے انتخابی مہم میں اندھا دھند اخراجات کیے، اچھرہ میں ایک ٹیوب ویل کی تنصیب بھی بجٹ ڈاکومنٹس میں شامل ہے جبکہ اس ٹیوب ویل کا کہیں وجود ہی نہیں ہے۔ انہوں نے ان اخراجات کا تھرڈ پارٹی آڈٹ کرانے کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے بجٹ میں مختلف محکموں کیلئے بھاری فنڈز مختص کیے لیکن خرچ نہ کیا بلکہ تعلیم، امن و امان، ہاؤسنگ اینڈ فزیکل پلاننگ ، صحت جیسے بنیادی اہمیت کے حامل اداروں کے فنڈز انڈر پاسز اور میٹرو جیسے دوسرے من پسند منصوبوں پر خرچ کر دیے۔ حکومتی اقلیتی رکن شہزاد منشی نے حکومت کے مینارٹی کیلئے رکھے جانے والے فنڈز کی تعریف کی اور اس پر تنقید بھی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ جتنے فنڈز مختص کیے گئے تھے ، اتنے فنڈز خرچ نہیں کئے گئے انہوں نے مینارٹی ایڈوائزری کونسل توڑ کر نئی کونسل تشکیل دینے کا مطالبہ کیا اور انسانی حقوق کی وزارت پر تنقید کرتے ہوئے اس کی کارکرگی صفر قرار دی۔ اپوزیشن رکن فائزہ ملک نے بھی حکومتی پالیسیوں اور فنانشل مس مینجمنٹ پر تنقید کی۔ انہوں نے کہا کہ حکومت فنڈز کی تقسیم اور اخراجات میں من مانی کرتی ہے، اس من مانی کے بجائے وہ عوامی مسائل کے حل کیلئے ترجیحات کا تعین کرے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں کی تنخواہوں اور مراعات میں اضافے کیلئے پیکیج دینے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایسے طبقے کو سڑکوں پر آنے کا موقع دینے کے بجائے ان کے مسائل دہلیز پر حل کرنے کیلئے اقدامات کیے جانے چاہئیں۔ حکومتی ارکان راشدہ یعقوب اور طارق مسیح گل نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اپوزیشن پر تنقید کی تاہم سپیکر نے مختلف موقع پر انہیں سخت الفاظ استعمال کرنے سے روکا اور بجٹ پر بات کرنیکی تلقین کی لیکن وہ سپیکر کے روکنے کو نظر انداز کرتے رہے، ان دونوں نے ضمنی بجٹ پر بات کے بجائے آئندہ مالی سال کے بجٹ کی تعریف کی جبکہ پیپلز پارٹی کی فائزہ ملک نے سپیکر سے شکوہ کیا کہ جب ہم کوئی بات کرتے ہیں تو ہمیں اس سے روک دیا جاتا ہے، حکومتی ارکان کے معاملے میں بھی یکساں پالیسی اختیار کی جائے جبکہ اپوزیشن رکن خدیجہ عمر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئیے تعریفیں کرنے والے حکومتی ارکان کو سچ بولنے کی اور حقائق کے مطابق گفتگو کرنے کی نصیحت کی۔