متحدہ حزب اختلاف اور حکومت کے درمیان پانامہ لیکس کے معاملے کی تحقیقات کیلئے ضابطہ کار بنانے کے معاملے پر بات چیت کے کئی دور ہونے کے باوجود پرنالہ وہیں کا وہیں ہے۔ ہر بار حزب اختلاف کی جماعتوں پر مشتمل کمیٹی کے ارکان عدم مطابقت اور عدم اتفاق ہی کا عندیہ دیتے رہے۔
بالآخر متحدہ اپوزیشن کی نو جماعتوں میں سے پانچ جماعتوںکی جانب سے ٹی او آر ز پر مزید بات چیت کو بے سود قرار دے کر مذاکرات کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا ہے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کو شکایت ہے کہ حکومت چاہتی ہے کہ تحقیقات کے عمل کو اتنا وسیع کیا جائے اور اتنی طول دی جائے کہ تین سال تک نتیجہ نہ نکلے۔ حزب اختلاف کی جماعتوں کا یہ اعتراض بے جا نہیں بلکہ حقیقتاً حکومت کیلئے یہی موقف موزوں ہے کہ جتنا ممکن ہوسکے معاملے کو طول دیا جائے اور معاملات کو کبھی ڈیڈ لاک اور کبھی مذاکرات کے ذریعے طول دے کر زیادہ سے زیادہ وقت لیا جائے۔ حکومت کسی طور تحقیقات کا آغاز وزیراعظم کے خاندان سے کرنے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی اور اگر اسکی نوبت آئے بھی تو اس وقت تک حکومت مدت اقتدار کے کم از کم آخری سال میں تو ہو اور تحقیقات کا آغاز حکومت کے جانے کے بعد اگر ہو بھی جاتا ہے تو حکمران جماعت کے پاس روایتی طور پر مظلومیت کا رونا رونے کا سنہری موقع ہاتھ آجائے گا۔ اگرچہ حکومتی مذاکراتی ٹیم کے اراکین اس کی تردید کریں اور وہ مذاکرات کو کامیاب بنائے رکھنے کی سعی جتائیں گے لیکن حزب اختلاف کا واویلا بے وجہ نہیں ۔ وفاقی وزیر ریلوے کی جانب سے حزب اختلاف پر خود ہی مدعی اور خود ہی منصف بننے کا اعتراض کمیٹی کے اراکین کے اعتراضات کا جواب دینے کی کوشش ہے۔ وطن عزیز میں جس کی چیز کے بارے میں کمیٹی بن جائے اسکے انجام بالخیر کی توقع عبث ہونے کا مشاہدہ ہے۔ کتنی کمیٹیاں بنیں مگر ان کی رپورٹ اور کمیٹیوں کی سفارشات کا ہیچ ہونا ریکارڈ سے ثابت ہے۔ بہرحال یہاں تو معاملہ تحقیقاتی کمیٹی بنانے کیلئے اختیارات‘ دائرہ کار اور قوعد و ضوابط اور رہنما اصول طے کرنے کا ہے۔ باقی معاملات تو بعد کی باتیں ہیں اسی مرحلے پر معاملے کو اس قدر گھمبیر بنا دیا گیا ہے کہ پانامہ لیکس کی تحقیقات کا معاملہ کسی بھی وقت پس پردہ جانے اور کسی نئے معاملے کے آگے آنے کا امکان ہے۔ اگرچہ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو اور پی پی پی کے رہنما سینیٹر اعتزاز احسن نے پی پی پی اور تحریک انصاف کے ایک کنٹینر میں یکجا ہو کر احتجاج کا عندیہ دیا ہے۔دیگر سیاسی جماعتوں کی جانب سے بھی حکومت کے خلاف انتہائی اقدام کا امکان بھی بہت زیادہ ہے۔
عید کے بعد عمران خان ، بلاول بھٹو اور ڈاکٹر طاہر القادری نے لانگ مارچ کرنے کا اعلان کر رکھا ہے تینوں ہی دھمکیاں دے رہے ہیں کہ وہ نواز شریف کو ان کی کرسی سے ہٹا کر عنان اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے۔ عمران خان اس بات کی یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ اگر انہیں اقتدار ملا تو وہ پاکستان کو مثالی ریاست بنا دیں گے۔ عمران خان خیبر پختونخواہ کیلئے تو کچھ نہیں کرسکے وہ پورے پاکستان کیلئے کیا کرسکتے ہیں۔ درحقیقت یہ انقلاب لانے والوں کی خواہشات پر مبنی کھوکھلے دعوے ہیں ان سے ظاہر ہوتا ہے کہ لانگ مارچ کے مقاصد میں کامیابی حاصل کرنے کیلئے ان کا ’’ہوم ورک‘‘ مکمل نہیں ہے۔ ان کا انجام بھی بے نظیر بھٹو کے 1992ء والے لانگ مارچ کی طرح ناکام ہی ہوگا جہاں انہیں لاڑکانہ میں نظر بند ہونا پڑا اور ان کی والدہ نصرت بھٹو کو لہو لہان ہو کر ہسپتال منتقل ہونا پڑا۔
گذشتہ چند دنوں میں رونما ہونیوالے واقعات سے ظاہر ہوتا ہے کہ عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری دونوں حضرات جنگ جیتنے کیلئے باطواسطہ حکمت عملی پر عمل پیرا ہیں۔ جس کا مقصد عوامی طاقت سے بدامنی پھیلا کر حالات کو اس نازک موڑ پر لے آتا ہے کہ حکومت کو مجبور ہو کر سول انتظامیہ کی مدد کی خاطر آرمی کو بلانا پڑے۔ عمران خان نے تو پہلے ہی کہنا شروع کر دیا ہے کہ ’’حالات کو سنبھالنے کیلئے حکومت آرمی کو بلانے کا فیصلہ کر چکی ہے‘‘۔ اور یہی عمران خان اور طاہرالقادری کا مقصد ہے۔یہ دونوں حضرات یہ سب کچھ نادیدہ قوتوں کے اشارے پر کر رہے ہیں۔کراچی میں امن و امان کی صورتحال خراب ہونے پر عوامی حلقوں نے فوج کی طرف دیکھنا شروع کر دیا ہے اور انہوں نے یہ بھی مطالبہ کر دیا ہے کہ فوج کو اقتدار میں آکر امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانا چاہیئے۔ موجودہ ملکی حالات میں مارشل لاء لگانے سے ملک بہت مشکلات کا شکار ہوجائے گا پاکستان میں جب بھی مارشل لاء لگا ہے پاکستان کی سلامتی اور استحکام کو نقصان ہی پہنچا ہے۔ملک میں پیش آنیوالے بدامنی کے حالیہ واقعات تو تمام سیاسی جماعتوں کے مل بیٹھنے اور دہشتگردی کی نئی لہر کیخلاف مل کر رد عمل کا اظہار کرنے کا تقاضا کر رہے ہیں موجودہ صورت حال میں اگر احتجاج کی سیاست کو بڑھا وا دیا گیا تو قوم یہ سوچنے پر مجبور ہو جائے گی کہ سیاسی جماعتوں کو ان کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پانامہ لیکس تحقیقات کے معاملے پر نرم رویہ اختیار کرے اور اپوزیشن جماعتوں کو دوبارہ مذاکرات کی میز پر لے آئے۔ یہ یاد رکھنا ہوگا کہ سیاسی محاذ آرائی کو بڑھانا کسی کے مفاد میں نہیں ہے اس سے ملک اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے۔